اعظم طارق راہنما سیاسی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان، اور پاکستان میں اپنے وقت کے طاقتور ترین راہنمائوں میں سے ایک۔ شیعہ ذرائع اعظم طارق کو 1997 تا 2003 سینکڑوں اہل تشیعہ مسلمانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کہتے ہیں۔
سپاہ صحابہ ایک دیوبندی وہابی تنظیم ہے جس کے افغانستان میں القاعدہ کے تربیتی کیمپوں تک تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اس تنظیم پر اگست 2001 میں پابندی لگا دی تھی۔ شیعہ نیوز (جو اس تنظیم کو انتہا پسند تنظیم گردانتی ہے)کے مطابق بہت سے سنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔
پہلے تین حملوں کے تسلسل میں اعظم طارق پر یہ کامیاب قاتلانہ حملہ چوتھا تھا۔ تحصیل چیچہ وطنی میں واقع گائوں ایک سو گیارہ/ سات آر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک راجپوت منج خاندان سے بتایا جاتا ہے۔
تعلیم انہوں نے اپنی ابتدائی مذہبی تعلیم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع دارالعلوم ربانیہ سے حاصل کی۔ تحصیل علم کے لئے وہ مدرسہ تجوید القرآن چیچہ وطنی اور جامعہ عربیہ نعمانیہ چنیوٹ سے بھی مسلک رہے۔ انہوں نے سن انیس سو چوراسی میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی سے دورہ حدیث کا کورس مکمل کیا۔
انہوں نے وفاق المدارس سے عربی اور اسلامیات کے مضامین میں ایم اے کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہوئی تھیں۔ تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد وہ جامعہ محمودیہ کراچی میں صدر مدرس اور ناظم اعلی مقرر ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جامعہ صدیق اکبر نارتھ کراچی کے خطیب بھی تھے۔
سپاہ صحابہ میں شمولیت جھنگ میں سپاہ صحابہ ( اس وقت انجمن سپاہ صحابہ) کے قیام کو ابھی سات ماہ ہی کا عرصہ گزرا تھا وہ اس میں شامل ہو گئے اور کراچی میں اس کی تشکیل شروع کر دی۔ وہ پہلے کراچی سنٹرل اور بعد میں کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ سن انیس سو نواسی میں جماعت کے بانی اور قائد مولانا حق نواز جھنگوی نے انہیں صوبہ سندھ کا سیکریٹری جنرل نامزد کر دیا۔
مولانا حق نواز جھنگوی کی ہلاکت کے بعد وہ پہلے سپاہ صحابہ کے ڈپٹی سیکریٹری بنے۔ جنوری سن انیس سو اکیانوے میں وہ جماعت کے نائب سرپرست اعلی بنے۔ اس مرحلے پر انہوں نے کراچی سے سکونت ترک کر دی اور جھنگ میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہاں انہیں مسجد حق نواز جھنگوی کا خطیب مقرر کیا گیا۔
ملکی سیاست میں ان کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب انہوں نے سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے جھنگ شہر کی قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی۔ مولانا ایثار القاسمی کے قتل کی وجہ سے ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہوں نے سپاہ صحابہ کے روایتی حریف شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف کو شکست دی۔
سپاہ صحابہ کی سربراہی جنوری سن انیس سو چھیانوے میں لاہور کے سیشن کورٹ میں ہونے والے بم دھماکہ میں سپاہ صحابہ کے قائد مولانا ضیا الرحمن فاروقی کی ہلاکت کے بعد وہ کالعدم تنظیم کے سرپرست اعلی بن گئے۔ انہیں گوجرانولہ کے ایس ایس پی اشرف مارتھ کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور انہوں نے کافی عرصہ جیل میں گزارا۔
سن انیس سو ستانوے میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی سیٹ تو نواب امان اللہ سیال کے ہاتھوں ہار گئے تھے لیکن وہ صوبائی اسمبلی کی نشست صرف چند ووٹوں کی اکثریت سے جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کا مقابلہ ڈاکٹر ابوالحسن انصاری سے تھا۔
گزشتہ انتخابات کے موقع پر بھی وہ میانوالی جیل میں بند تھے لیکن اس کے باوجود وہ جھنگ شہر پر مشتمل سپاہ صحابہ کی قومی اسمبلی کی روایتی نشست جیتنے میں کامیاب رہے۔ جھنگ سے ایم این اے منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ان کو عدالت نے رہا کرنے کاحکم جاری کیا۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایک نئی جماعت ملت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا ساتھ دیا۔
مولانا اعظم طارق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے کارکنوں کے درمیان جتنے زیادہ مقبول تھے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے اتنے ہی مخالف تھے۔ مخالف فرقے کے لوگوں میں ان کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا بنیادی وجہ سن انیس سو ترانوے میں جھنگ کے ایک عوامی اجتماع ان کی وہ تقریر تھی جس میں انہوں نے شیعہ مسلک کے بارہویں امام مہدی کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعلق سپاہ صحابہ کے ایک انتہا پسند دہشت گرد ریاض بسرا کی تنظیم لشکر جھنگوی سے بھی رہا۔ جس نے بہت بڑے بڑے شیعہ علما کو قتل کیا۔ مولانا خود تو اس بات کر تردید کرتے رہے۔ لیکن حقیقت سب پر واضح ہے۔کہ ایجینسیوں کی ایما پر اعظم طارق نے ہمیشہ فرقہ واریت کو ہوادی۔ ان کے خلاف پینسٹھ مقدمے درج ہوئے جن میں اٹھائیس کا تعلق دہشت گردی کے قانون سے رہا۔
یوں ضیا دور میں پاکستان میں سپاہ صحابہ ، لشکرجھنگوی اور سپاہ محمد جیسی سنی اور شیعہ دہشت گرد تنظیموں نے نے فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کی وحدت کو جو نقصان پہچایا وہ ناقابل تلافی ہے۔
ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ پر پہلا حملہ ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور میں اس وقت ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد جارہے تھے۔ اس حملے میں ان پر راکٹ تک فائر کئے گئے لیکن وہ بال بال بچ گئے۔
سترہ جنوری سن انیس سو چھیاسی میں لاہور کے سیشن کورٹ پر ہونے والے حملے کا بھی اصل نشانہ مولانا اعظم طارق ہی تھے۔ حملے میں سپاہ صحابہ کے قائد مولانا ضیا الرحمن فاروقی، دو درجن سے زائد پولیس ملازمین، ایک پریس فوٹوگرافر ہلاک ہوئے جبکہ خود مولانا اعظم طارق زخمی ہوگئے۔
ہلاکت اعظم طارق کو 4 اکتوبر 2003 کو ایم 2 موٹروے سے اسلام آباد داخل ہونے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ایک اور انتہا پسند راہنما قاری ضیا الرحمن کی بھی ہلاکت ہوئی۔ ایک اخبار کے مطابق ایک سفید پجیرو اعظم طارق کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس سے آگے بڑھی اور سڑک پر کسی ایکشن فلم کے منظر کی طرح گھومتے ہوئے اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔
پجیرو میں سے تین افرد اچھل کر باہر نکلے۔ اور خودکار ہتھیاروں سے اعظم طارق کی گاڑی پر تین اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دو سے تین منٹ کے اندر 200 گولیاں برسائی گئیں۔ صرف اعظم طارق کو 40 گولیاں لگیں۔