اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے تنازع کے پانچویں سال شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں موجود اسسٹنٹ مشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ دو ہزار گیارہ میں تین ہزار اکیس افغان شہری ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار دس میں دو ہزار سات سو نوے جبکہ سنہ دو ہزار نو میں ان ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار چار سو بارہ تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں شدت پسندی کی وجہ سے ہوئیں۔
عالمی ادارے کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں دیسی ساختہ بموں اور خود کش حملوں کی وجہ سے ہوئیں تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنہ دو ہزار گیارہ کے دوران زیادہ تر شہری فضائی حملوں کے باعث ہلاک ہوئے۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے نمائندہ خصوصی جان کیوبس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بچوں، خواتین اور مردوں کی ہلاکت کی تعداد بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے تنازع کے فریقین کو رواں سال کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی کے لیے اقدامات کرنے پڑے گے۔پروٹیکشن آف سویلین اینڈ آرمڈ کنفلیکٹ کی جانب سے سنہ دو ہزار گیارہ میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار سات سے لے کر اب تک گیارہ ہزار آٹھ سو چونسٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار گیارہ میں حکومت مخالف عناصر پر دو ہزار تین سو بتیس افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے جو کہ سنہ دو ہزار دس کے مقابلے میں چودہ فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سنہ دو ہزار گیارہ کے دوران حکومت کی حامی افواج کے حملوں سے چار سو دس شہری ہلاک ہوئے اور یہ تعداد سنہ دو ہزار دس کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق دیسی ساختہ بموں کی وجہ سے سنہ دو ہزار گیارہ میں نو سو سڑسٹھ افغان بچے، خواتین اور مرد ہلاک ہوئے۔اقوامِ متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پلے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سویلین ہلاکتوں کا مسلسل بڑھنا باعثِ تشویش ہے۔انہوں نے افغانستان کے تنازع کے فریقین پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔