افغانستان نئی تاریخ کیوں لکھ رہا ہے؟

Afghanistan

Afghanistan

حکومت کا مقف ہے کہ ان نئی نصابی کتب سے لسانی اور سیاسی خطوط پر منقسم افغانستان میں یک جہتی پیدا ہوگی۔

افغانستان کی وزارت تعلیم نے تعلیمی اداروں کے لیے تاریخ کے نئے نصاب کی توثیق کی ہے جس میں ملک کے جنگ زدہ ماضی کی تقریبا چار دہائیوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔حکومت کا مقف ہے کہ اس نئے نصاب سے ملک میں یکجہتی آئے گی جو اب تک لسانی اور سیاسی خطوط پر منقسم رہا ہے۔

لیکن ناقدین ا فغان وزرا پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ طالبان اور دوسرے طاقتور گروہوں کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کے وہ حصے حذف کر رہے ہیں جو ان گروہوں کو برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا سے پہلے طالبان کی حمایت جیتنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان ایک غیر یقینی دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں طالبان اور دوسرے کرداروں کے ساتھ پیچیدہ انتظامات متوقع ہیں۔خستہ حالی کا کوئی ذکر نہیں،افغانستان کے پچھلے چالیس سال دنیا میں کسی بھی ملک کی تاریخ کا پرآشوب ترین عرصہ ہیں۔ شمالی میدانوں کے افراد کی تکالیف کا اس نصاب میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے نصاب میں انیسں سو ستر کی خون ریز بغاوت، انیس سو اناسی کی روسی جارحیت اور بعد میں قائم ہونے والی روس کی حمایتی کمیونسٹ حکومت سمیت خفیہ پولیسں کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی ان گنت خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے

ناقدین کا کہنا ہے کہ تاریخ کے نصاب میں سنہ انیسں سو ستر کی خون ریز بغاوت، سنہ انیس سو اناسی کی روسی جارحیت اور بعد میں قائم ہونے والی روس کی حمایتی کمیونسٹ حکومت سمیت خفیہ پولیسں کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی ان گنت خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

اسی طرح مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی جس کا کابل انیس سو نوے کی دہائی میں شکار رہا اور جس کے نتیجے میں ستر ہزار افراد ہلاک ہوئے بھی اس نصاب سے غائب ہیں۔اس تنازع کے نتیجے میں طالبان کو عروج ملا لیکن اس کا بھی اس میں کہیں ذکر نہیں ہے اور بعد میں امریکہ کی قیادت میں ہونے والے حملے کا بھی کوئی ذکر نہیں جس کے نتیجے میں طالبان کو شکست ہوئی۔

جنگ کے نتیجے میں آنے والی تکالیف کا بھی کوئی ذکرنہیں ہے۔ کابل ایک قتل عام کا علاقہ تھا اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ کتاب کہتی ہے کہ ملا عمر کو دو ہزار ایک میں ہٹا دیا گیا لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ملا عمر ہے کون۔نیٹو اور امریکہ کی موجودگی کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی دو انگلیوں سے سورج کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزارت تعلیم نے ان تجاویز کو رد کیا ہے کہ اس نئے نصاب کو ترتیب دینے میں کوئی بیرونی ہاتھ ہے جبکہ امریکی افواج کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے ان کتب کے مواد کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی اگرچہ ان میں سے کچھ میں امریکہ کے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔

امریکی افواج کے کابل میں ایک ترجمان ڈیوڈ لاکن نے کہا کہ ہمارے ثقافتی مشیروں نے معاشرتی علوم کی کتب کو غیر مناسب مواد یعنی تشدد کے لیے ترغیب دینا یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کے نقط نظر سے نظرثانی کی تھی۔

میرواعظ سکول میں پڑھانے والے استاد عبدالقدوس نے کہا اگر طلبا ماضی میں ہونے والے تشدد کے بارے میں نہیں پڑھیں گے تو وہ اس سے مستقبل میں کیسے بچیں گے؟۔
سرابی ہائی سکول جو کابل سے پچھہتر کلومیٹر دور ہے اس میں مجھے ایک جماعت میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں ایک استاد اپنے چھٹی جماعت کے طالب علم کو اس نئی چمکدار نصابی کتاب میں سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے۔

طالب علم سردار محمد داد پر ایک باب پڑھتا ہے جو سنہ انیس سو ترپن سے تریسٹھ کے درمیان ملک کے وزیراعظم اور دس سال کے لیے صدر رہے۔
اس باب میں سردار داد کے عروج کی تو بات کی گئی ہے مگر انہوں نے کیسے اپنے چچازاد بھائی ظاہر شاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اس کا کوئی ذکرنہیں ہے۔اس کے بعد کا باب بھی ملک کی تاریخ میں ہونے والی خونی بغاوتوں کے بارے میں خاموش تھا جو افغانستان کے سیاسی منظرنامے کو بدلتی رہی ہیں۔

جیسا کہ نجیب اللہ سمیت ماسکو کی حمایت یافتہ حکومتیں یا پھر ان کے استعفی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی جس نے طالبان کو عروج دیا اور پھر ان کے بعد میں ہونے والے زوال کا بھی۔بچوں کو کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا
میں نے ایک گیارہ سالہ طالب علم مسلم سے پوچھا جو بڑے انہماک سے اپنے ساتھی کو پڑھتے ہوئے سن رہا تھا روسی جارحیت کے دوران سروبی میں کیا ہوا؟

مسلم نے جواب میں کہا روسی افغانستان سے اسلام ہٹانا چاہتے تھے۔ بہت سارے لوگ مارے گئے کئی گاں پر بمباری کی گئی اور لاکھوں افراد کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔میں نے پوچھا تمہیں کیسے پتا چلا؟ یہ تو تمہاری کتاب میں نہیں لکھا ہے؟مسلم نے معصومیت سے جواب دیا میرے والدین نے مجھے بتایا۔طلبا کو طالبان کے عروج و زوال کے بارے میں صرف چند حوالے ملیں گے۔

ان کے استاد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ نئی نصابی کتب ایک پوری نسل کو ماضی کے بارے میں معلومات سے محروم کریں گی۔
افغانستان میں انٹرنیٹ کی رسائی اور بیرونی دنیا سے رابطہ بہت محدود ہے بچوں کو باقی دنیا کے بچوں کی نسبت صرف نصابی کتابوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

اب حکومت نے گزشتہ چالیس سالوں کی بحرانی تاریخ کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لاکھوں طلبا کو یہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ افغانستان اس حال تک کیسے پہنچا۔سروبی کی طرح شمالی میدانوں کو بھی روسی فوج اور طالبان کی جانب سے بہت سی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔نصابی کتاب کہتی ہے کہ ملا عمر کو دو ہزار ایک میں ہٹا دیا گیا لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ملا عمر کون ہے۔

چاریکر کا مصروف شہر آج سے بارہ سال پہلے تک ایک تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ طالبان نے اس شہر کو شمالی اتحاد کا ساتھ دینے کی پاداش میں تباہ کیا۔میر واعظ سکول کے استاد عبدالقدوس نے کہا ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے، کھیت اور باغات اجاڑ دیے گئے، گھروں کو تباہ کیا گیا اور لوگوں کو قتل کیا گیا۔

لیکن طالبان کی دھرتی جلانے کی پالیسی کا بھی تاریخ کی نئی نصابی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے۔قدوس کے مطابق طالبعلموں کے لیے اہم ہے وہ تمام حکومتوں کے بارے میں پڑھیں قطع نظر اس کے کہ اس کا دور حکومت اچھا تھا یا برا۔ تاریخ کو پڑھنے کی بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے لیکن اگر طلبا ماضی کے تشدد کے بارے میں پڑھیں گے ہی نہیں وہ اس سے مستقبل میں کیسے بچیں گے؟۔

وزیر تعلیم فاروق وردک کا کہنا ہے کہ تاریخ کے بعض حصوں کو کتابوں سے حذف کرنے کا فیصلہ ملک کے وسیع مفاد میں کیا گیا ہے تاہم ڈر یہ ہے کہ طالب علموں کو بنیادی تاریخی واقعات کے بارے میں سچائی جاننے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
ایک خاتوں رکن اسمبلی انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا ہماری قوم کے درمیان سینکڑوں اور ہزاروں معاملات پر عدم موافقت ہے اور میری ذمہ داری ہے کہ میں ملک میں اتفاق بڑھاں نہ کے نااتفاقی۔ میں ایک تقسیم کرنے والے تعلیمی ایجنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کروں گا۔ اب اگر میں ایک ایسی چیز لکھوں جس پر کوئی قومی اتفاق رائے نہیں ہے تو میں غیر رضا مندی کی بات حتی کہ جنگ کو جماعت اور سکولوں میں لے کر جا رہا ہوں۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔

لیکن بہت سے دوسرے افراد کے لیے یہ نصاب کے ساتھ ایک دھوکہ ہے۔ ناقدین سوال کرتے ہیں کہ ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں اگر ہم اپنے ماضی سے چشم پوشی کرتے رہیں گے اور اس کا سامنا نہیں کریں گے؟

ایک خاتوں رکن اسمبلی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ کابل خانہ جنگی کے دوران تباہ ہوا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان کے دورِحکومت میں خواتین کے ساتھ بہت مظالم ہوئے تھے۔ ان کے کام کرنے یا سکول جانے کی ممانعت تھی۔ سینکڑوں خواتین کو زنا کے مبینہ الزامات کے تحت سنگسار کیا گیا تھا اس سب کو نصابی کتب میں جگہ نہیں ملی۔