کابل: افغانستان پر امریکی جارحیت کے دس برس مکمل ہو گئے۔ مگر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔یہ الفاظ نہیں طبل جنگ تھے۔ جو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ادا کئے اور یوں آغاز ہوا ایسی جنگ کا جس میں ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا۔ اس کا جواب دس سال بعد بھی واضح نہیں۔ اگر اس کا جواب امریکا پر دہشتگردوں کا حملہ تھا تو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نائن الیون کا کوئی بھی حملہ آور افغان شہری نہیں تھا۔ امریکا سات اکتوبر دو ہزار ایک کو افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ دس سال ہوگئے۔ طالبان ختم نہیں ہوئے۔ حامد کرزئی کا اثر و رسوخ چند علاقوں تک ہی محدود ہے۔ امن کا امریکی وعدہ وفا ہوا نہ ہی افغانیوں کو روزگار ملا۔ تو پھر دس سالہ جنگ میں کیا تبدیل ہوا۔ امریکا نے کہا کہ فیکٹری میں دہشتگرد ہیں۔ اور پھر اس پر بمباری کردی۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں بچا۔ سب تباہ ہوگیا۔دس سالوں میں تو ہم نے صرف جنگ ہی دیکھی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ افغانستان میں تبدیلی کی بات کی جائے تو صورتحال تبدیل ہوئی ہے تو صرف اس حد تک کہ کابل سمیت بعض علاقوں میں خواتین آزادی سے گھومتی اور کاروبار زندگی انجام دیتی نظر آتی ہیں۔ یا پھر کانسرٹ میں نوجوان محو رقص نظر آتے ہیں جو شاید طالبان کے دور میں ممکن نہ تھا۔ دس برس کی طویل جنگ کے بعد امریکا بھی اب افغان جنگ کو سیاسی طریقے سے ختم کرنا چاہتا ہے۔ سابق افغان وزیر خارجہ عبدوکیل احمد متوکل کے مطابق مذاکرات سے ہی امن کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔ طالبان کو تسلیم نہ کرنا امریکا کی غلطی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ طالبان یا تو قتل کردئے جائیں گے یا انہیں پکڑ لیا جائے گا۔ یہ ان کی غلطی تھی۔ طالبان روز بروز مضبوط ہوتے چلے گئے۔ طالبان سے بات کرکے حل نکالا جاسکتا ہے۔ دس برس گزر گئے مگر افغانستان میں امن نہ ہوا آئندہ کیا ہوگا۔ حامد کرزئی کیا امریکا بھی نہیں جانتا۔ حالات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغانستان میں امن کیلئے طالبان سمیت تمام فریقین سے بات کرنا ہوگی۔ عام شہریوں کو امن عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔ معاشی و سماجی ترقی کا محض وعدہ ہی نہیں بلکہ عوام کیلئے عملا کچھ کرکے امن کی امید پیدا کی جا سکتی ہے۔