افغانستان کی جیلیں افغانوں کے حوالے

bagram

bagram

بگرام : ( جیو ڈیسک ) امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت بگرام سمیت افغانستان کی تمام جیلیں اب افغان حکام کے زیر انتظام آ جائیں گی۔ ان جیلوں میں سب سے زیادہ متنازع بگرام جیل ہے جس میں دہشت گردی کے ملزمان سمیت تین ہزار افراد نظر بند ہیں۔ معاہدے کے مطابق بگرام جیل کا کنٹرول چھ ماہ تک افعان حکام کو دیا جائے گا تا ہم اطلاعات کے مطابق امریکی حکام کو جیل میں عمل دخل حاصل رہے گا اور وہ بعض قیدیوں کی رہائی کو روک بھی سکیں گے۔
افغانستان سے نیٹو افواج کے واپس جانے سے پہلے امریکہ کے زیر انتظام افغان جیلوں کو افغان حکام کے حوالے کرنے کا معاملہ صدر حامد کرزئی کے بنیادی مطالبات میں شامل رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیلوں کے انتظام کا معاملہ نیٹو جنگجو دستوں کے 2014 میں واپس جانے اور افغانستان سے مستقبل میں لمبی مدت کے تعلقات کے لیے ہونے والے مذاکرات میں بھی آڑے آتا رہا ہے۔ بگرام جیل سرکاری طور پر پروان ڈیٹینشن سینٹر کے نام جانی جاتی ہے اور افغانستان میں نیٹو افواج کے بڑے فوجی اڈوں میں سے ایک میں واقع ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران اس جیل کو قیدیوں سے بدسلوکی کے واقعات کے الزامات میں بھی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔
بگرام ہی میں قرآن کو جلائے جانے کے واقعے کے بعد افغانستان بھر میں کئی دن تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں اور ٹارگٹ کلنگز کے دوران کم از کم تیس افراد کی ہلاکتوں کے بعد نیٹو بھی شدید دبا میں ہے۔ لوگوں کے ناراضی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کے بار بار معافی مانگنے کے باوجود بھی لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے یہ معاہدہ اس طریق کار کی جانب پہلا قدم ہے جس کو آخری شکل دینے کے لیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور جس کے نتیجے میں آخرِ کار وہ تمام جیلیں جن کا انتظام ابھی امریکی چلا رہے مکمل طور پر افغان حکام کے حوالے کر دی جائیں گی۔
اس سلسلے میں امریکی اور افغان حکام نے یادداشت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ صدر حامد کرزئی کی طرف سے دیے گئے وقت کے مطابق جیلوں کو افغان حکام کے حوالے کرنے کا یہ معاہدہ جنوری میں ہونا تھا۔ لیکن جب جنوری میں یہ معاہدہ نہیں ہو سکا تو افغان صدر نے امریکی حکام کو دی گئی مدت میں توسیع کر دی۔ یہ مدت بھی دس مارچ کو ختم ہونے والی تھی۔ معاہدے کی یادداشت پر دستخط ہونے کے بعد افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جون الِن نے واقعے کو سراہتے ہوئے یادداشت کو منتقلی میں پیش رفت کی ایک اور مثال قرار دیا۔