البرٹ آئن سٹائن

 

Albert Einstein

Albert Einstein

نام :: البرٹ آئن سٹائن

تاریخ پیداءش :: 14/03/1879

18/04/1955 :: تاریخ وفات

وجھ شھرت :: طبیعیات دان

البرٹ آئنسٹائن بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی کے شہر الم میں 14 مارچ 1879 کو پیدا ہوا۔ باپ کا نام ہرمین اور ماں کا نام پالین تھا۔

ابتدائی زندگی
آئن سٹائن کا خاندان جرمنی کے خوشحال یہودی النسل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ باپ کاروباری تھا مگر زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ جب آئنسٹائن چھ برس کا تھا، یہ لوگ میونخ آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک مدرسہ میں پائی۔ یہاں کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ 1894 میں آئن سٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔

دسمبر 1894 میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئنسٹائن (غالبا جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر 1896 میں اس نے جرمن شہریت چھوڑ دی۔ اکتوبر 1895 میں سویٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقعہ یونیوسٹی ETH کے داخلہ کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ استاد نے مشورہ دیا کہ سکول کی تعلیم مکمل کرو، چنانچہ سویئزرلینڈ کے شہر Aarau کے ایک سکول میں پڑھائی کی۔

یہاں جس گھر میں قیام تھا، اس کے مالک کی بیٹی Marie سے شناسائی ہوئی۔ اگلے سال ETH کا داخلہ امتحان کامیاب کیا۔ اب اس نے ETH میں پڑھائی شروع کر دی۔ وہ سکول استاد بننے کی پڑھائی کرنے لگا۔ اگست 1900 میں امتحان دیا، پانچ طالب علموں کے امتحان میں آئن سٹائن چوتھے نمبر پر آیا۔ پہلے تین کو ETH نے نوکری دے دی، مگر اسے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ملیوا مارِک (Mileva Maric) کو نہیں۔

ملیوا کے ساتھ اس کا میل جول تھا اور وہ بعد میں آئن سٹائن کی پہلی بیوی بنی۔ ملیوا عیسائی تھی اور سربیا سے تعلق تھا۔ ملیوا اور آئن سٹائن کے درمیان 1897 سے 1903 تک کے خطوط کے تبادلہ سے تاریخ دانوں کو اس بارے معلومات ملی ہیں۔ ان خطوط میں ذاتی معاملات کے علاوہ فزکس کے مسائل پر بھی گفتگو ملتی ہے۔

فکرِ معاش کی وجہ سے آئنسٹائن شادی نہیں کر پا رہا تھا، مگر ملیوا حاملہ ہو گئی۔ 1902 میں ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر پالا نہیں۔ 1902 میں ہی آئن سٹائن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آئن سٹائن عارضی استاد کے طور پر مختلف جگہ کام کرتا رہا، حتی کہ جون 1902 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے patent دفتر میں نوکری مل گئی۔ 1901 میں آئن سٹائن سویٹزرلینڈ کا شہری بھی بن گیا۔

جنوری 1903 میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران آئن سٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا، اور اسی دوران اس نے اپنی زندگی کے عظیم تریں مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے، کہ آئن سٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔ یہ شبہات آئن سٹائن اور ملیوا کے خطوط سے پیدا ہوئے جن میں آئن سٹائن ”ہمارے نظریے” کا ذکر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ روسی سائنسدان Abraham Joffe نے مبینہ طور پر یہ بتایا کہ جب آئن سٹائن نے اپنے مقالے جریدہ Annalen der Physik کو بھیجے تو ان پر پیٹنٹ دفتر میں کام کرنے والے Einstien-Maric نامی کسی شخص کے دستخط تھے۔

1905، کارناموں کا سال
اس سال آئن سٹائن نے چار مشہور مقالے شائع کیے:

پہلا مقالہ روشنی کی ہیئت کے بارے تھا۔ روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے کچھ تجرباتی نتائج کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئن سٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو چھوٹے چھوٹے نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے پیش کیا تھا۔

دوسرا مقالہ برانین حرکت (Brownian motion) کا ریاضی ماڈل تھا، جس میں احصا کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔

تیسرا مقالہ اس کی مشہور مساوات E = mc2 تھی، جس میں مادہ اور توانائی کا آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔ حال میں ایک محقق نے رائے دی ہے کہ یہ مساوات ایک اطالوی نے آئن سٹائن سے کچھ سال پہلے شائع کی تھی، اگرچہ اضافیت نظریہ کے سیاق و سباق میں نہیں۔

چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضا کو علیحدہ علیحدہ تصور کرنے کی بجائے ”وقت، فضا” یا ”زمان و مکاں” (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ(مگر یکساں) سمتار سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہو گی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم، اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کو ایک ہی (تقریبا ) نظر آئے گی۔

اور یہ بھی کہ کوئی مادہ چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں (uniform) سمتار سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا ”ساکن” ہے۔

واضح رہے کہ اضافیت کا نظریہ اس سے پہلے Hendrik Lorentz اور Henri Poincare پیش کر چکے تھے۔ آئن سٹائن نے یہ اضافہ کیا کہ ایسا تجربہ ناممکن ہونے کا اطلاق Maxwell کی برقناطیسی موجوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طیبیعات کے قوانین تمام غیر اسراعی (non-accelerated) جمودی حوالہ جاتی قالب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

پروفیسری اور واپس جرمنی میں
1906 میں زیورخ یونیوسٹی نے پی۔ایچ۔ڈی کی سند عطا کی، جس کے لیے آئن سٹائن نے تحقیقی مقالہ 1905 میں جمع کرایا تھا۔ مقالات کی وجہ سے آئنسٹائن کی شہرت جو پھیلی، تو زیورخ یونیوسٹی نینظریاتی طیبعیات میں اکتوبر 1909 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔ 1910 میں پراگ یونیوسٹی سے پوری پروفیسر کی پیشکش ہوئی، تو 1911 میں پراگ چلا گیا۔

یہاں جرمن اور چیک افراد میں لسانی و قومیاتی چپقلش کی وجہ سے کشیدگی تھی، اس لیے ایک سال ہی یہاں گزارنے کے بعد 1912 میں زیورخ یونیوسٹی میں مکمل پروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ 1911 میں برسلز میں اس کی Max Planck اور Lorentz جیسے بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی۔ 1911 میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کیا۔ شہرت اور بڑھی، تو برلن یونیوسٹی، جو اس وقت علم کا گڑھ تھا، سے پروفیسر اور نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر، اور اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، جو قبول کر کے آئنسٹائن 1914 میں جرمنی چلا آیا۔

جرمن شہریت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہاں آنے کے چار ماہ بعد ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ چار سالہ جنگ کے دوران آئن سٹائن زیادہ تر جرمنی میں ہی مقیم رہا۔ 1918 میں جنگ جرمنی کی شکشت پر ختم ہوئی۔ جرمنی پر سخت شرائط تھیں، اور اسے فاتح ممالک کو بھاری رقم جرمانے کے طور پر دینا پڑ رہی تھی۔ اس سے جرمنی کی معیشت تباہ ہونا شروع ہوئی تو جرمن سیاست میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں نے زور پکڑ لیا۔

فرانس جرمنی کے کچھ علاقہ پر غاصبانہ قابض تھا، مگر اس کے باوجود آئن سٹائن فرانس کی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں یہودیوں کو بھی جرمنی کی تباہ شدہ معیشت کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ اس کے باوجود آئنسٹائن جرمنی میں مقبول تھا (سوائے کچھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے)۔ آئن سٹائن عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکہ، امریکہ اور فلسطین شامل تھے۔ امریکہ کئی دفعہ گیا۔

ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئن سٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔ 1922 میں آئنسٹائن کو نوبل انعام دیا گیا۔ 1929 میں جرمنی کے ایک شہر نے ایک جھیل پر آئنسٹائن کو جھونپڑی تحفے میں دی (بعد میں آئن سٹائن کو اس کی کچھ قیمت بھی دینا پڑی) ۔ آئن سٹائن کشتی رانی کا شوقین تھا۔ 1933 میں آئن سٹائن امریکہ کے دورے پر تھا کہ جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار سنبھال لیا۔

آئن سٹائن یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئن سٹائن نے جرمنی کے بجائے بیلجیم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔[3]1933 میں ہی آئن سٹائن امریکہ منتقل ہو گیا۔

اولاد
پہلی بیٹی شادی سے پہلے 1902 میں سربیا میں بیوی ملیوا کے آبائی گھر پیدا ہوئی، مگر اسے ماں باپ نے پالا نہیں۔ اس کا انجام معلوم نہیں۔ 1903 میں پہلا بیٹا ہینز (Hans)، شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا، جس نے سویٹزرلینڈ سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی تعلیم مکمل کی، اور بعد میں برکلے یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پروفیسر بنا، اور 1973 میں وفات پائی۔

اپنی ماں سے آئن سٹائن کے برے سلوک کی وجہ سے کافی عرصہ اس کے باپ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ دوسرا بیٹا ایڈورڈ 1910 میں پیدا ہوا، جو ذہنی مریض تھا، اور ذہنی امراض کے اداروں میں ہی زیادہ وقت گزارا۔ 1965 میں زیورخ میں وفات پائی۔

ازواج
پہلی بیوی ملیوا مارِک (Mileva Maric) سے 1903 میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی، اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ 1914 میں برلن جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ آئن سٹائن نے ملیوا کو صرف اس صورت اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تھا اگر وہ یہ شرائط پوری کرے

A. تم یہ یقینی بنائو گی کہ (1) میرے کپڑے اور بسترا ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (2) مجھے اپنے کمرے میں تین وقت کا کھانا پہنچائو گی۔ (3) میرا سونے اور پڑھنے کا کمرہ صاف ستھرا رکھو گی۔ میری پڑھنے والی میز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ B. میرے سے تمہارے تمام ذاتی تعلقات ختم ہوں گے، سوائے لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ …..جب مخاطب ہوں تو فورا جواب دو گی …..میرے بچوں کو میرے خلاف نہیں کرو گی، گفتگو سے یا اپنے عمل سے۔

اس کے بعد ملیوا بچوں کو لے کر زیورخ چلی آئی۔ 1916 میں آئن سٹائن نے طلاق کا سوال کیا۔ ملیوا ذہنی صدمے سے نڈھال ہو گئی، ہسپتال میں داخل ہوئی۔ آخر 1918 میں اس شرط پر طلاق ہوئی کے اگر میاں کو نوبل انعام ملے تو اس کے پیسے ملیوا کے ہوں گے اور بچوں کو مالی طور پر میاں سہارا دے گا۔ دونوں بیٹوں کو ملیوا نے اکیلے ہی سوئٹزرلینڈ میں پالا۔ بڑا بیٹا بڑا ہو کر امریکہ چلا گیا۔ 1948 میں ملیوا کی وفات ہوئی تو ہسپتال میں اکیلی تھی۔

1914 میں برلن آنے کے بعد آئن سٹائن کی شناشائی اپنی چچا زاد بہن ایلسا (Elsa) سے دوبارہ ہوئی۔ اس نے آئن سٹائن کے لیے ایک سیکرٹری ہیلن ڈیوکس (Helen Dukas) ڈھونڈ کر رکھ کے دی جو عمر بھر آئن سٹائن کی سیکرٹری رہی۔ آئن سٹائن اس شش وپنج میں تھا کہ ایلسا سے شادی بنائے یا اس کی جوان سال بیٹی سے۔ مگر اس بیٹی نے کچھ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور آئن سٹائن نے ایلسا سے ہی شادی کر لی۔ ایلسا بعد میں آئن سٹائن کے ساتھ امریکہ آ گئی جہاں 1936 میں انتقال کیا۔

عمومی اضافیت نظریہ
مکمل مضمون کے لئے دیکھئے: نظری اضافیت
نظری عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915 میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ

اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔
کشش ثقل (جس کی وجہ سے مثلا سورج کے گرد سیارے کا گھومتے ہیں) کی طاقت کی ایک اور توضیح پیش کی۔ وہ یہ کہ سورج کی موجودگی سے زمان و مکان ہی ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اب سیارہ اپنی طرف سے سیدھا ہی چل رہا ہوتا ہے مگر اس زمان و مکان کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے وہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اس ٹیرھے پن کا اثر برقناطیسی موجوں پر بھی ہو گا۔

مثلا ستاروں کی روشنی سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا رخ ہلکا سا تبدیل کرتی ہے۔ روشنی کے اس مڑنے کی تصدیق تجرباتی طور پر سورج گرہن کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے 1919 میں کی، جس سے عمومی اضافیت نظریہ کی تصدیق ہو گئی اور آئن سٹائن کی شہرت کی اخباروں میں دھوم مچ گئی۔ تاریخ دانوں نے کہا ہے کہ برطانوی سائنسدان ایڈنگٹن نے اس تصدیق میں ڈنڈی ماری تھی۔

اس کے علاوہ سیارے عطارد کا مدار مشاہدے میں جیسا نظر آتا تھا، اس کی آئزک نیوٹن کا کشش ثقل نظریہ پوری طرح تشریح نہیں کر پاتا تھا، جبکہ نظریہ اضافیت کی پیشن گوئی اور مشاہدہ میں مماثلت دیکھی گئی۔

نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی کی شعاعیں بھاری ستاروں سے نکلتے ہوئے ان شعاعوں کا تعدد سرخ (روشنی کے طیف میں سرخ رنگ کی) طرف تھوڑا سا کھسک جاتا ہے۔
جب آئن سٹائن نے یہ نظریہ تیار کر رہا تھا، اسی عرصہ میں اس کا عظیم جرمن سائنسدان ڈیوڈ ہلبرٹ کے ہاں کچھ دن قیام رہا اور اس سے سائنسی بحث بھی ہوتی رہی۔ آئن سٹائن سے کچھ دن پہلے ہلبرٹ نے نظریہ اضافیت پر ابنا مقالہ سائنسی جریدے کو ارسال کیا۔ آئن سٹائن نے بعد میں ہلبرٹ پر اس کے خیالات ”چوری” کرنے کا الزام لگایا۔ یہ اب تک متنازعہ ہے کہ ہلبرٹ اور آئن سٹائن کا عمومی اضافیت نظریہ میں کتنا حصہ تھا۔

علم الکائنات
آئن سٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کا علم الکائنات سے گہرا تعلق بنتا تھا۔ اس لیے علم الکائنات کے بارے بھی آئن سٹائن نے تحقیقی نظریات پیش کیے۔

مقداریہ آلاتیات
مقداریہ آلاتیات کا نظریہ اسی زمانے میں وجود میں آ رہا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق:

ہم یہ نہیں کہے سکتے کہ برقیہ گردش کرتا ہوا جوہر کے اندر ایک خاص مدار میں ہے، بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں برقیہ کا کسی جگہ موجود ہونے کا احتمال کیا ہے۔ یعنی جس طرح روشنی کی موجیں دوہری فطرت (dual nature) رکھتی ہیں، یعنی روشنی کی موجوں کو نوریہ ذرات پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے، بعینہ، جوہری ذرات (مثلا برقیہ) بھی دوہری فطرت رکھتے ہیں، یعنی انہیں بھی موجوں کی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

اس نظریہ سے اصولِ سببیہ (causality principle) کی بھی نفی ہو سکتی ہے۔
غیریقینی اصول، جس کے مطابق کسی ذرے کا مقام اور معیار حرکت دونوں ایک ساتھ اپنی مرضی کی انتہائی درستگی سے ناپا نہیں جا سکتا۔
آئن سٹائن نے فلسفیانہ بنیادوں پر اس نظریہ سے اختلاف کیا۔ آئن سٹائن کا قول تھا کہ ”خدا طاس نہیں کھیلتا۔” اس کا خیال تھا کہ یہ ایک عارضی نظریہ ہے اور ایک بہتر نظریہ دریافت ہو گا جس میں یہ ”خامیاں” نہیں ہونگی۔ اس سلسلہ میں اس کی بوہر سے طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ البتہ مقداریہ آلاتیات نظریہ سائنسدانوں میں قبول ہو گیا اور جوان سائنسدان بوڑھے آئن سٹائن کو غیر مناسب سمجھنے لگے۔

صیہونیت کی معاونت
آئن سٹائن فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا پر جوش حامی تھا۔ 1921 میں اس نے وائزمین (Chaim Weizmann) کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا اور صیہونیت کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے متعدد شہروں میں تقریریں کیں۔ 1952 میں آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش ہوئی جو اس نے قبول نہیں کی۔

امریکہ میں
1933 میں آئنسٹائن، ایلسا اور ہیلن کے ساتھ امریکہ چلا آیا اور پرنسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ امریکہ کے پہلے دوروں پر اسے مختلف یونیوسٹیوں نے پہلے سے پروفیسری کی پیشکش کر رکھی تھی۔ یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول میں اپنی تحقیقات میں لگ گیا جو اب قدرت کی تمام طاقتوں کا ایک متحد نظریہ دریافت کرنا تھا۔ اس میں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری رکھیں۔ 1940 میں امریکہ کی شہریت حاصل کی۔

امریکہ میں آئن سٹائن کی عظیم شخصیت کی طرح پذیرائی ہوتی تھی، اور صحافی اس کے ہر موضوع پر خیالات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آئن سٹائن کو جرمن قوم سے سخت نفرت ہو گئی اور جنگ کے بعد پیشکش ہونے پر بھی وہ جرمنی نہیں گیا۔

18 اپریل 1955 کو پرنسٹن میں ہی موت ہوئی۔ آئن سٹائن hemolytic anemia کا مریض تھا۔ موت کی وجہ اس کے arota میں aneurysm کا پھٹنا تھا۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے خفیہ طور پر سر چیر کر دماغ مرتبانوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔ میت کو بعد میں جلا کر راکھ (cremate) کر دیا گیا۔

ایٹم بم
1939 میں امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس میں ایٹم بم بنانے کی ترغیب دی۔ وجہ یہ بتائی کہ شاید ایڈولف ہٹلر ایسا کرنا چاہتا ہو۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال سے لاکھوں انسان لقم اجل ہوئے تو آئن سٹائن نے افسوس کا اظہار کیا۔

امریکی بحریہ کا بم ماہر
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی بحریہ نے اس کی خدمات اسلحہ ماہر کی حیثیت سے حاصل کیں۔ آئن سٹائن اپنی ماہرانہ رائے دیا کرتا کہ سمندر میں کس طرح کہ بم کی ساخت کامیاب رہیں گی۔

ایف۔بی۔آئی
امریکی خفیہ ایجنسی FBI آئن سٹائن کے بائیں بازو (سیاسی و معاشی)نظریات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور خفیہ تحقیقات کر رہی تھی۔

آئن سٹائن کا خدا
آئنسٹائن کے اقوال میں خدا (God) کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ خدا سے مراد قدرت (nature) تھی۔ بہرحال آئن سٹائن کا نظری خدا مذہبی نقطہ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔