وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں کو آمروں کی پیداوار قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ انتخابات اپنے وقت پر 2013 ہی میں ہوں گے۔ سرگودھا میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے والے اپنے سیاسی مخالفین کوخفیہ ہاتھوں اور آمروں کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے والا ٹھہراتے ہوئے ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ یہ لوگ عوام کو گمراہ کرکے جمہوریت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی عوامی طاقت سے اقتدار میں آئی ہے اور وہ جمہوریت کے خلاف سازشوں کو عوام کی طاقت ہی سے ناکام بنائے گی۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی جانب سے ہمیشہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیے جانے کا دعوی بھی کیا اور یقین دہانی کرائی کہ صدارتی استثنا کے حوالے سے بھی عدالت کا فیصلہ قبول کیا جائے گا۔انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر چوٹ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہمیں عدلیہ کے احترام کی نصیحتیں کرنے والے جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے عدلیہ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے وقت میں جب جناب گیلانی کی حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد کا تقریبا 80 فی صد وقت پورا کرچکی ہے ، اور اس مدت میں عوام کے مسائل اور مشکلات میں ہولناک اضافے کے سوا کوئی اور کارکردگی اس کے کھاتے میں نظر نہیں آتی قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو جمہوریت کے خلاف سازش اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش قرار دینا فی الحقیقت بڑے حوصلے کی بات ہے۔واقعاتی صورت حال یہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں کرپشن کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑے جاچکے ہیں، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، اور واپڈا جیسے بڑے بڑے قومی ادارے تباہی سے دوچار ہیں، بجلی اور گیس کے روز افزوں بحران نے صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے، قومی معیشت جاں بلب ہے ، ملکی کرنسی مسلسل روبہ زوال ہے، جبکہ بے روزگاری، مہنگائی اور بدامنی کے مسائل عام آدمی کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا روز بروز مشکل تر بنا تے چلے جارہے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اپنی مقبولیت کی پست ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ان حالات میں نئے انتخابات کا مطالبہ بالکل فطری اور عوام کے دل کی آواز دکھائی دیتا ہے۔حکومت کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد میں شرکت اسی حقیقت کا اظہار ہے۔وقتا فوقتا سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگ موجودہ حکومت کے ہاتھوں اب کسی بہتری توقع نہیں رکھتے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو حکومت چار سال میں عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکی وہ اب ایک سال میں کیا کارنامہ دکھاسکتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے چار سال کی مدت میں عوام کے مسائل کسی حد تک بھی حل کئے ہوتے، کرپشن کے خاتمے کے لئے نتیجہ خیز اقدامات میں عمل میں لائے گئے ہوتے، بجلی اور گیس کی صورت حال کو بہتر کیا گیا ہوتا، چار سال میں توانائی کے متبادل ذرائع کو معقول حد تک روبعمل لایا گیا ہوتا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے گئے ہوتے، بے لگام مہنگائی کو قابو میں لایا جاتا، اور حکمرانوں نے ملک کے وسائل کو اپنے اللے تللوں پر لٹانے کے بجائے عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے صرف کیا ہوتا تو آج کسی بھی جانب سے وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ ممکن نہ ہوتا اور لوگ موجودہ حکمرانوں کے اقتدار کی درازی کی دعا کررہے ہوتے۔ ان حالات میں حکمرانوں کے لئے ہوش مندی کاتقاضا یہ ہے کہ جو ایک سال کا وقت ان کے پاس باقی بچا ہے، اسے وہ پوری دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل کے حل کے لئے استعمال کریں۔ یہ ملک اللہ کے فضل سے وسائل سے مالا مال ہے، ضرورت صرف ان وسائل کے درست استعمال کی ہے۔ کرپشن خصوصا حکمرانوں کی سطح پر جاری مالی بدعنوانیاں اس ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے خاتمے کے لئے احتساب کے نظام کو موثر اور نتیجہ خیز بنانا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت خود اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کے احترام کے دعووں کے باوجود اعلی حکمرانوں کی سطح پر ہونے والی کرپشن کی روک تھام کے لئے عدلیہ کے فیصلوں کو جس طرح گیلانی حکومت نے اب تک نظر انداز کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ کم از کم اب وزیر اعظم کو اپنے الفاظ کا پاس کرتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا تہیہ کرلینا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ملک کو درپیش دیگر مسائل کے حل کے لئے جن میں بلوچستان اور ملک کے شمالی علاقوں کی خطرناک صورت حال، امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کے لئے مشکلات بڑھانے کی کوششیں، بھارت کے ساتھ تعلقات، بھارت کی جانب سے پاکستان کے لئے پانی کی فراہمی مسلسل کم سے کم کرنے کے اقدامات ، کشمیر کا مسئلہ اور ملک کی مغربی سرحدوں کی صورت حال شامل ہیں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ مختص کرنا چاہئے۔اگر وہ ایسا کریں تو امیدکی جاسکتی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ٹھنڈا پڑجائے گا لیکن اگر وہ اس کے بجائے فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں کو آمروں کی پیداوار اور خفیہ ہاتھوں کا آلہ کار قرار دے کر حالات کو اپنی حکومت کے حق میں استوار کرنے کی توقع رکھتے ہیں، تو اس کا پورا ہونا محال نظر آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کون سی سیاسی قوت آمروں کی پیداوار نہیں ہے اور آج کا کون سا سیاسی گروپ ایسا ہے جس نے کسی نہ کسی ش#کل میں فوجی آمروں سے تعاون نہیں کیا۔اس لئے حکمراں جماعت سمیت تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ طعنہ زنی کی سیاست چھوڑ کر ملک کے حقیقی مسائل کے حل کیلئے کام کریں۔ اپوزیشن بھی قوم کو بتائے کہ اس کے پاس ان مسائل کے حل کے لئے کیا عملی پروگرام ہے اور حکومت کے پاس اگر ان مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ بھی اسے بلاتاخیر بروئے کار لائے ۔ جمہوری اور سیاسی قوتوں کی جانب سے ایک دوسرے کو سازشی اور آمروں کی پیداوارقراردینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، ہاں سیاسی قوتوں کے درمیان کشیدگی کی یہ فضا غیر جمہوری قوتوں کے جانب سے مداخلت کی راہ ضرور ہموار کرسکتی ہے۔ لہذا سیاسی قوتوں کو قبل از وقت انتخابات سمیت اپنے تمام معاملات مل بیٹھ کرطے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاہم اس سمت میں پیش قدمی بہرحال حکومت ہی کا کام ہے۔جہاں تک قبل از وقت انتخابات کی بات ہے تو بجائے خود یہ کوئی غیرجمہوری مطالبہ نہیں ، تمام ملکوں میں صورتحال کے مطابق انتخابات ہوتے رہتے ہیں، اس لئے پاکستان میں اس مطالبے کوحکومت کے خلاف سازش قرار دینے کا نعرہ کوئی جواز نہیں رکھتا۔