یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، انسان آج جو کچھ بوتا ہے کل وہی اُسے کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ یہاں ہر ایک کو اپنے ارادے، سوچ اور عمل کا حساب دینا ہے۔ ہر جھوٹ، ہر دھوکے، ہر فریب، ہر تکلیف اور ہر اذیت جو کسی کو دیتا ہے، ایک دن اُسے خود بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ پوری اسلامی دنیا کے حصے بخرے کرنے کی سازشوں میں مصروف امریکا ، برطانیہ اور اتحادی ممالک آج اسی مکافاتِ عمل سے دوچار ہیں۔ ان ممالک میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی ہیں اور آئندہ برسوں میں دنیا کے نقشے پر بہت سے نئے ممالک نمودار ہونے کی پیشگوئیاں ہو رہی ہیں۔ سابق سپر پاور سوویت یونین کی کوکھ سے چودہ مسلم ریاستوں نے جنم لیا تھا جبکہ اب امریکا میں اوباما کے دوسری بار صدارتی انتخاب جیتنے کے ساتھ ہی تین درجن کے قریب ریاستوں نے علیحدگی کی پٹیشنز دائر کر دی ہیں۔ اس وقت امریکا پچاس ریاستوں پر مشتمل ایک اتحاد کا نام ہے۔ اس اتحاد میں تیرہ ریاستیں پہلے سے موجود تھیں جبکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران سینتیس نئی ریاستیں شامل ہوئیں مگر اب بیشتر ریاستوں نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی طرح برطانیہ اپنی وسعت کے اعتبار سے تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور کافی عرصہ تک ایک عالمی طاقت رہی۔ یہ اتنی وسیع تھی کہ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سلطنتِ برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ برطانیہ ایک ایسا سیاسی اتحاد ہے جو چار ممالک انگلستان، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ سے مل کر بنا ہے لیکن اب 2014ء میں اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے۔ 1707ء تک اسکاٹ لینڈ ایک خود مختار ریاست تھی، جسے بعد میں ذاتی پسند کی بناء پر انگلینڈ اور آئرلینڈ سے ملا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیمز ششم آف اسکاٹ لینڈ بیک وقت ان دو ریاستوں کا بادشاہ تھا جبکہ بعد میں اسکاٹ لینڈ بھی الحاق میں شامل ہو گیا اور پھر یہ ریاستیں مل کر ایک ملک برطانیہ بن گیا۔ اس دوران اسکاٹ لینڈ میں اس الحاق کے خلاف عام مظاہرے بھی ہوتے رہے جبکہ اب اسکاٹس نیشنل پارٹی کا بڑھتا عروج برطانیہ کے تین سو برس پرانے اتحاد کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔ برطانوی سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ اسکاٹ لینڈ تاج برطانیہ کا حصہ رہے لیکن اسکاٹس نیشنل پارٹی خود مختاری چاہتی ہے جبکہ ایک سروے کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی دو تہائی آبادی بھی برطانیہ سے علیحدگی کی خواہشمند ہے۔
یورپ کے کئی دیگر ممالک میں بھی آزادی کے حصول کی جدوجہد جاری ہے۔ اسپین میں باسک علیحدگی پسند خود مختاری چاہتے ہیں۔ باسک علاقے رقبے کے لحاظ سے اسپین کا دس فیصد بنتے ہیں تاہم مجموعی قومی پیداوار میں ان کا ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ بیلجیم میں زبان پر تنازعہ موجود ہے، جہاں ولندیزی بولنے والے علاقوں کا الگ ہونیکا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ اسی طرح شمالی اٹلی اور میلان کے ارد گرد کے علاقے بھی ملک کے معاشی اعتبار سے کمزور جنوبی حصے کی مزید مدد نہیں کرنا چاہتے جبکہ جمہوریہ قبرص کے جنوبی اور شمالی حصے میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ شمالی حصے کو ترکی کی حمایت حاصل ہے جبکہ جنوبی حصے میں یونانی نسل آباد ہے۔ جزیرے کے دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کے باعث مکالمہ شروع کرانے کی عالمی برادری کی کوششوں کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ برطانوی جریدہ اکنامسٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں برطانیہ، اسپین، قبرص، بیلجیم، چیک ری پبلک، فن لینڈ، جرمنی، نیدر لینڈ، پولینڈ، پرتگال اور سویڈن تقسیم ہو جائیں گے۔اس رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں دنیا کے نقشے پر جو نئے ممالک جنم لیں گے اُن میں برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ، اسپین سے کیٹاکونیکا اور باسک، قبرص سے ترکش ری پبلک آف جنوبی قبرص، بیلجیم سے فلینڈرز، چیک ری پبلک سے ماراویا، فن لینڈ سے ایلنڈ اور سامی، جرمنی سے باواریا، نیدرلینڈ سے فریسیا، پولینڈ سے اپرسیلسیا، پرتگال سے میڈیرا اور دی ایزورس جبکہ سویڈن سے سامی اور اسکانیکا شامل ہیں جبکہ امریکا کی تین درجن کے قریب ریاستوں نے صدارتی انتخابات کے فوری بعد ہی امریکا سے علیحدگی کا اعلان کرکے اس کی سپرپاوری بھی خطرے میں ڈال دی ہے۔
ان میں سے بیشتروہ ریاستیں ہیں جنہوں نے صدارتی انتخاب میں مٹ رومنی کو ووٹ دیئے تھے۔ 2008ء کے صدارتی انتخاب میں بارک اوباما کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہونے سے گوروں کو زبردست نفسیاتی جھٹکا لگا تھا۔ اس بار بھی صدارتی انتخاب میں مٹ رومنی کی حمایت میں امریکا کے گورے لوگوں کی اکثریت تھی اور مسٹر اوباما کو صدر منتخب کرنے میں ایشیائی، افریقی اور ہسپانوی نژاد ووٹروں نے ہم رول ادا کیا جبکہ سیاہ فام لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں اوباما کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی کہ اگر یہی رویہ رہا تو عین ممکن ہے کہ باہر سے آنے والے امریکی باشندے آئندہ کے صدارتی انتخاب میں بادشاہ گر کا رول ادا کرینگے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کو سب سے پہلے 4جولائی 1776ء میں سرکاری طور پر اعلانِ آزادی میں استعمال کیا گیا۔ اس اعلانِ آزادی میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جب بھی لوگ کسی سیاسی بندھن سے علیحدگی اختیار کرنا چاہیں تو انہیں اس کی آزادی ہے کہ وہ علیحدہ ہو سکتے ہیں اور اپنی علیحدہ حکومت بنا سکتے ہیں جبکہ امریکی قانون کے مطابق عوام کی طرف سے حکومت کو درخواست جمع کرانے کے بعد ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر اس عرصہ کے دوران درخواست پر پچیس ہزار افراد نے دستخط کر دیئے تو پھر انتظامیہ اس پر غور کرتی ہے۔ اپنی غلط داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی بدولت آج امریکا خود ہی مشکلات میں پھنس چکا ہے۔ امریکا نے چھ عشروں کے دوران اسلامی دنیا کے حوالے سے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس نے صرف بگاڑ ہی پیدا کیا ہے۔ اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں کئی مسلم معاشرے تاراج ہوئے جبکہ اس عرصہ کے دوران امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو پورا تحفظ اور سہولتیں فراہم کیں بلکہ سپرپاوری کے نشے میں کئی مسلم ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں بھی قائم کیں مگر اب امریکا میں ریاستوں کی علیحدگی کا مطالبہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل میں اس کا حشر بھی روس جیسا ہونے والا ہے۔ اسی طرح بہت سے ممالک کے علیحدگی پسندوں کو پناہ دینے اور اُن کی سرپرستی کرنے والے ملک برطانیہ نے متحدہ ہندوستان پر ”لڑائو اور حکومت کرو” کے اُصول کے تحت راج کیا۔
Khamosh Tamasha
ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں کو فروغ دیا گیا اور پھر یہ چھوٹی ریاستیں آپس میں دست بہ گریباں ہوتی رہیں مگر آج برطانیہ خود ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور اسکاٹ لینڈ کی صوبائی حکومت کے سربراہ الیکس سیل منڈکے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں آزادی کا ریفرنڈم 2014ء میں منعقد کرایا جائے گا جس میں اسکاٹ لینڈ کے عوام فیصلہ کرینگے کہ وہ برطانیہ کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ملک چاہتے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق برطانیہ زیادہ عرصہ تک متحد نہیں رہ سکے گا اور اگر اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا تو پھر دیگر ممالک بھی اس اتحاد سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ آج بھی اسکاٹ لینڈ کا عدالتی اور قانونی نظام اور جرم و سزا انگلینڈ، ویلمز اور شمالی آئرلینڈ سے الگ ہے۔ امریکا نے سوویت یونین کے ٹکڑے کئے تاکہ خود سپرپاور بن بیٹھے لیکن اب خود ہزیمت سے دوچار ہے جبکہ ریفرنڈم کے نتیجے میں اگر اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا تو یہ گزشتہ تین سو سالوں میں برطانیہ کی تقسیم کا اہم ترین واقعہ ہوگا۔