امریکہ : (جیو ڈیسک) 1996 سے اب تک امریکہ کے سکولوں میں فائرنگ کے پچاس کے قریب واقعات پیش آئے۔ ان میں سے فائرنگ کرنے والے زیادہ تر سکول میں پڑھنے والے طالبعلم یا سابق طالبعلم ہوتے ہیں۔ فائرنگ کے ان واقعات میں اساتذہ، سکول کے پرنسپلز اور دیگر طالبعلم بھی مارے گئے۔ امریکہ میں ان واقعات کی روک تھا م کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔پچھلے مہینیفروری کے آخر میں ایسا ہی ایک واقعہ ریاست اوہائیو کے ایک سکول میں پیش آیا تھا۔
سکول پر فائرنگ کرنے والا سکول کا ایک17 سالہ طالبعلم ٹی جے لین تھا۔ اس کی فائرنگ سے تین طالبعلم ہلاک ہوئے۔پولیس، ماہر تعلیم اور ماہر نفسیات سکول میں فائرنگ کرنے والے طالبعلموں کی مشترکہ عادات کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کرنے والے ان طالبعلموں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ سوائے اس کے کہ یہ سب لڑکے تھے اور سکول میں پڑھتے تھے۔
آمنڈا نکرسن ایک ماہر نفسیات ہیں اور یونیورسٹی آف بفلو سے منسلک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر احساس کمتری کا شکار تھے۔ انہیں سکول میں ساتھی طالبعلم ستاتے تھے۔ فائرنگ کرنے والے بچوں میں سے اکثر ڈپریشن کا شکار تھے اور خودکشی کی طرف مائل تھے لیکن بچوں کے ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کی صورت میں بعض اوقات مدد ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔ وار ایگل ایسٹ اس بچے کے والد ہیں جس نے 2010 میں ریاست کولوراڈو کے ایک سکول میں فائرنگ کی تھی۔ان کا کہناہے کہ میرا بیٹا کسی ذہنی دبا اورالجھن کا شکار تھا۔ وہ چند جگہوں پر علاج کی غرض سیبھی گیا لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہو سکا۔
پروفیسر نیکر سن کہتے ہیں کہ احتیاط بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر اس طرح کے واقعات اچانک نہیں پیش آتے۔ بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ پلاننگ ہوتی ہے۔ بعض اوقات چند لوگوں کو سکول پر فائرنگ ہونے سے پہلے اس بارے میں معلوم تھا۔
سکولوں میں فائرنگ کے واقعات کبھی کبھار ہی پیش آتے ہیں۔ اور اسی لیے انہیں زیادہ میڈیا کوریج بھی ملتی ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کے مطابق سکولوں میں اس قسم کے واقعات میں دس لاکھ میں سے ایک بچہ مارے جانے کا امکان ہوتا ہے۔