کوئی مانے یہ نہ مانے مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے حکمران ، سیاستدان ، سول و عسکری احکام سمیت ہم عوام بھی شاید مختلف بہانوں سے امریکی غلامی میں رہنے میں اپنی بقا اور عافیت تصورکرتے ہیں اور آج یہ غلامی ہمارے خون میں شامل ہوکر ہماری زندگی کی ضامن بن گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم 64 سالوں سے اپنے اِس امریکی غلامی کے حسین مگر پرفریب تصور سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ہیں تب ہی تو ہم کسی بھی معاملے میں ذرا سے امریکی دباؤ میں آکر امریکی جی حضوری میں بِھچ بِھچ جاتے ہیں اور یوں ہم سے اپنے مفادات حصول کرنے والا امریکا ہمارے اِس عمل اور اداؤںکے بدلے میں ہم پر بوریاں بوریاں بھر بھر کر ڈالرز نچھاور کر دیتا ہے اور ہم یہ ڈالرز چن چن کر اپنی جھولیوں کو یوں بھر رہے ہوتے ہیں جیسے آموں کے باغ سے آم …اور پھولوں کے باغ سے پھول …اور اِس دوران ہم جانے انجانے میں اپنی بقا و سالمیت اور خود مختاری کے ساتھ ساتھ اپنی رہی سہی غیرت کا بھی سودا کرجاتے ہیں اب جس کا احساس ہمیں کبھی ہوتا ہے اور کبھی وہ بھی نہیں..ماضی میں تو ایسا بھی ہوتا نظر آیا کہ اگر بھولے بھٹکے کسی نے کبھی آگے بڑھ کر ہمیں غیرت کے کھو جانے کا احساس دلایا تو ہم میںغیرت جا گ گئی اور ہم بلبلا اٹھے… اور اب تو ہماری بے حسی اور بے غیرتی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ کسی کے احساس دلانے کے باوجود بھی ہماری غیرت نہیں جاگ رہی ہے اور ہم امریکی غلامی میں بے سدھ پڑے ہیں۔
after Attack
جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اچانک ایک روز ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، اعلی سول و عسکری حکام اور عوام میں دومئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن اور26 نومبر2011کی شب جب امریکی اور نیٹوکے ہیلی کاپٹروں نے ہمارے علاقے میں پاک فوج کی سلالہ چیک پوسٹ پر اپنی وحشیانہ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ہمارے 24 جوان شہید اور اِسی طرح اِن واقعات سے قبل افغانستان کے راستے آنے والے سیکڑوں ڈرون طیاروںکے حملوں سے ہمارے ہزاروں بے گناہ اور معصوم شہریوں کی جو المناک ہلاکتیں ہوتی رہیں وہ سب الگ ہیں جبکہ ڈرون طیاروں کے ہمارے شہری علاقوں میں حملوںکا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز ہمارے معصوم اور بے گناہ شہری یوں ہی مارے جارہے ہیں ایسے بڑھتے ہوئے المناک واقعات کی روک تھام کے لئے غیرت جاگ گئی تو سب نے مل کر اِن واقعات کے برخلاف نیٹو افواج کی پاکستانی زمینی راستوں سے سپلائی کا سلسلہ بند کردیا اور جس کے بعد افغانستان میں برسرپیکار امریکی اور نیٹو افواج کو پریشانیاں پیش آئیں جن کو یہاں بیان کرنا سوائے وقت ضائع کرنے اور اپنے اصل موضوع سے ہٹ جانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کے راستے 180دن تک نیٹو سپلائی بند رہنے سے بالخصوص امریکا کوکیا نقصان ہوا اور پہلی بار امریکا کے لئے ہمارے اِس سخت عمل سے اِس سے ہمارے تعلقات میں جس کشیدگی نے جنم لیا آج یہ بھی سب کو معلوم ہے ۔
Pakistan Defense Council
اگرچہ افغانستان کے بارے میں اتوار 20 مئی سے امریکا کے شہر شکاگو میں شروع ہونے والی نیٹوکی دوروزہ سربراہی کانفرنس سے قبل امریکی انتظامیہ اور نیٹو میں شامل 48 ممالک 180دن بعد پاکستانی حکمرانوں کو نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے لئے راضی کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں مگر پاکستانی حکمرانوں اور سول و عسکری احکام کے اِس یکطرفہ فیصلے کے خلاف ملک کی بڑی حزبِ اختلاف سمیت مذہبی و سماجی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی شدیدردِ عمل پایا جاتا ہے۔ خبر ہے کہ دفاع پاکستان کونسل نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف 27 مئی کو کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور25 مئی کو ملک گیر یوم احتجاج کا بھی اعلان کرکے محب وطن ہونے کا ثبوت دے چکی ہے جبکہ شدید عوامی ردِ عمل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صدرآصف علی زرداری شکاگو میں ہونے والی نیٹوکانفرنس میں اپنا سینہ چوڑا کرکے اور اپنی گردن آسمان جتنی تان کر پارلیمنٹ کی قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر مستقل قریب میں اپنی کچھ ضرورتوںکو پوراکرنے اور کرانے کے لئے امریکا سے 5 ہزار ڈالر فی کنٹینر کی وصولی کا دوٹوک مطالبہ کرتے ہوئے باضابطہ طور پر نیٹو سپلائی کا پرتباک انداز سے اعلان کرکے امریکا سمیت نیٹو کے 48 ممالک کی بھی خوشنودی حاصل کرلیں گے اور پھر ہمارے ملک میں ایک طرف ڈالرز کی بارش ہو جائیگی تو دوسری طرف امریکا اور نیٹو افواج کو فری ہینڈ ملتے ہی معصوم انسانوں کے مرنے سے خون کی ندیاں بہنی بھی شروع جائیں گیں اِس طرح بقول حکمران ملک میں خوشحالی آجائیگی او ر ملکی معیشت کو بھی سہارا مل جائے گا اور خالی ہونے والا قومی خزانہ لبالب بھر بھی جائے گا جو حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے تو کھلارہے گا مگر ملک کے مسائل میں گھیرے غریب عوام کی دادرسی کے لئے بندکردیا جائے گا۔
Reaperarmed
ادھرنیٹو سپلائی کی بحالی کی صورت میں پاک امریکا تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کے پیدا ہونے پر ایک امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 2015 میں امریکا اپنی ترجیحی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے قبائلی علاقے کے قاتل زون میں خودکار امریکی MQ-9 رپیرڈ کا گشت کا ایک نیا تجربہ کرنے کا ارادہ کرچکا ہے جس کے استعمال سے یہ جدید جاسوس ڈرون طیارہ اپنے ہدف سے متعلق خود معلومات حاصل کرے گا اور بروقت اپنی کارروائی سے امریکی افواج کو سو فیصد کامیابی سے ہمکنار کرے گا اِس امریکی اخبار نے بڑے وثوق سے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ یہ جدید ڈرون طیارہ ایسی بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے لیس ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی ڈرون طیارہ اب تک محروم ہے جو امریکا پاکستان پر نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد پاک امریکا تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے طور پر 2015 میں پاکستان کے علاقوں میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے استعمال کرے گا یعنی یہ کہ ایک طرف امریکا پاکستان سے اپنے تعلقات میں بہتری لانے کا خواہشمند ہے تو دوسری طرف اِس کے علاقوں میں جدید ڈرون طیاروں سے حملے کا بھی اپنا گھناؤ نا منصوبہ رکھتاہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2015 پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کیا رنگ لائے گا اِس امریکی منصوبے اور عزم کے بعد ایسا کچھ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ پاک امریکا تعلقات 2015 میں کسی مثبت اور تعمیری سمت میں چل رہے ہوں گے اور اِسی کے ساتھ ہی ادھر سندھ طاس واٹرکونسل کے چئیرمین حافظ ظہوررالحسن کی جانب سے ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ بھارت 2015 تک پاکستان کو صحراو ریگستان میں تبدیل کرنے کی اپنی گھناو نی منصوبہ بندی کر چکا ہے جی ہاں…!!یہی بھارت جسے گزشتہ دنوں ہمارے حکمران یقینی طور پر امریکی دباؤ میں آکر خطے کا انتہائی پسندیدہ ملک قرار دے چکے ہیں اِس ہی بھارت نے اپنے علاقوں کو سرسبزاور شاداب رکھنے کے لئے مستقبل قریب میں پاکستانی دریاو ں پر سات بڑے ڈیموں کی تعمیر شروع کرکے پاکستان کو خطے کے ایک بڑے صحراو ریگستان میں بدلنے کا اپنا گریڈ پروگرام بنا رکھا ہے جبکہ اِدھر ہمارے اِس صدی کے انتہائی مصالحت پسند حکمرانوں نے بھارت کو یہ موقع خود سے فراہم کرکے یہ ثابت کرنے کی شائد اپنی پوری کوشش کر رکھی ہے کہ تم ہمیں چاہئے جتنا نقصان پہنچانا چاہو پہنچادو مگر ہم تم سے امن کی آشا کے ہمیشہ خواہشمند رہیںگے ۔
اب اِن پس منظر میں امریکی 2015 اور بھارتی 2015 میں پاکستان سے متعلق اِن دونوں کے حوالے سے حقائق شاید اور زیادہ تلخ ہوں آج جس کا اندازہ ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہو پا رہا ہے مگر جب اِنہیں اِس کا پتہ چلے گا تو پانی سر سے بہت اونچا ہو چکا ہوگا تب ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، سول و عسکری حکام اور عوام کے پاس سوائے کفِ افسوس کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا تو اِن خدشات کے پشِ نظر ہمارا اپنے ملک کے ذمہ داروں کو یہ مشورہ ہے کہ امریکا سے نیٹوسپلائی کی ایسی مشروط بحالی جس سے امریکاکی دولت پاکستان میں منتقل ہو جائے اور بھارت کو امن کی آشا کے نام پر پسندیدہ ملک ضرور قرار دیا جائے مگر اپنی خو دمختاری، بقا و سا لمیت اور قوم کی جان و مال کا سودا تو ہرگز نہ کیاجائے اِسے صرف اخبار ی بیانات ، پارلیمنٹ کی قراردادوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اِس کا مظاہرہ عملی طور پر بھی نظر آنا ضروری ہے تاکہ قوم یہ جان سکے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ہے۔