نئی دہلی میں انا ہزارے کی حمایت میں نعرے لگانے والوں میں ایک آرکیٹیکٹ بھی شامل ہیں جو بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ستیندر جین کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے کلائینٹس کے تعمیری نقشوں کی منظوری کے لیے دہلی کی میونسپل کارپوریشن جاتے ہیں تو وہاں عملے کی مٹھی گرم کیے بغیر کام نہیں بنتا۔ ہمیں دلالوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ میونسپل کارپوریشن جاتے ہیں اور تعمیراتی نقشوں کی منظوری کے لیے لاکھوں روپے کی رشوت دیتے ہیں۔برسوں سے بھارت کے لوگ پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس یا راشن کارڈ حاصل کرنے کے لیے رشوتیں دیتے رہیہیں۔ لیکن جب انا ہزارے نے کرپشن پرتحقیق کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی کی مہم چلائی تو لوگ رشوت ستانی کے خلاف جنگ میں متحد ہو گئے۔74 سالہ ہزارے کو جو مہاتما گاندھی کے چیلے ہیں منگل کے روز گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر ملک بھر کے شہروں میں احتجاج شروع ہو گئے۔ہزارے کے حامیوں میں طالب علم، گھریلو خواتین، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور پیشہ ور افراد سبھی شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جسے عموما سیاست سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ لیکن اب یہی لوگ بھارت کی وہ جنگ لڑ رہے ہیں جسے ہزارے نے دوسری جنگِ آزادی کا نام دیا ہے۔سابق سرکاری ملازم رگھونندن تھونی پرمبل نے ایک ویب سائٹ شروع کی ہے جس کا پتہ ہے (ipaidabribe.com) جن لوگوں کو کرپشن سے جو واسطہ پڑتا ہے وہ اس ویب سائٹ پر اپنے تجربات ریکارڈ کراتے ہیں۔ لوگوں میں غصہ بہت زیادہ ہے۔ انا ہزارے ان کے نزدیک ایک علامت ہیں جس نے انھیں متحد کیا ہے۔ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے نکل آئے ہیں۔لوگوں میں ناراضگی کو کئی ارب ڈالر کے کئی اسکینڈلوں سے ہوا ملی ہے جن میں عوامی عہدے دار ملوث ہیں اور جن کے بارے میں تقریبا ایک سال سے خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن جس چیز سے لوگ صحیح معنوں میں تنگ آ چکے ہیں وہ روز مرہ زندگی کی کرپشن ہے۔ نئی دہلی میں تجزیہ کار پریم شنکر جھا کہتے ہیں کہ لوگوں کو ہر قدم پر رشوت دینی پڑتی ہے اور اقتصادی ترقی سے مسئلے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گذشتہ 20 برسوں میں اور خاص طور سے آخری دس برسوں میں جس تیزی سے ترقی ہوئی ہے اس کی وجہ سے ان لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو اس قسم کے کرپشن سے متاثر ہوئے ہیں۔ معیشت کے روایتی سیکٹر سے نکل کر جدید سیکٹر میں داخل ہونے والوں کی تعداد بڑھی ہے تو بہت زیادہ لوگوں کو نوکر شاہی اور سیاسی نظام سے واسطہ پڑا ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ کوئی کام پیسہ دیے بغیر نہیں ہوتا۔
سڑکوں پرعام لوگوں میں تقریبا مکمل اتفاقِ رائے ہے کہ اس بے تحاشا کرپشن کی ذمہ داری سیاسی طبقے پر ہے۔ انکیت جسوال یونیورسٹی میں طالب علم ہیں جو احتجاج کرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کا رویہ بہت خراب ہو گیا ہے۔ انھیں ملک کی نہیں صرف اپنی فکر ہے۔ وہ سرکاری پیسے کا غلط استعمال کرتیہیں۔لیکن دوسرے لوگوں نے انتباہ کیا ہے کہ کرپشن ایسی چیز نہیں ہے جس میں صرف سرکاری ملازم اور سیاست داں ہی ملوث ہوں۔گھونندن تھونی پرمبل کہتے ہیں کہ ان کی ویب سائٹ پر زمینوں اور مکانوں کی رجسٹریشن کے جن کیسوں کی اطلاع دی جاتی ہے ان کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن ایسا کاروبار بن گیا ہے جس میں سرکاری عہدے داروں کے علاوہ، بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ رشوت طلب کرنے والے صرف سرکاری ملازم ہی نہیں تھے بلکہ نجی شعبے کا ایک پورا نیٹ ورک جس میں وکیل اور تعمیراتی کمپنیوں کے ایجنٹ شامل تھے اس کھیل کا حصہ تھے۔ وہ لوگوں کو گھیر کر لاتے تھے اور انہیں قربانی کے بکروں کی طرح اپنے جال میں پھانس لیتے تھے۔اس نظام کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں، لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کے دو تہائی حصے کی عمر 35 سال سے کم ہے لوگ اب اس نظام کے خلاف لڑنے کو تیار ہیں۔ ان میں سوئیما جین جیسے طالب علم بھی ہیں جو سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور جو اس اعتماد اور جذبے سے سرشار ہیں کہ اس نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔ حالات بدل سکتے ہیں۔ حالات ضرور بدلیں گے اور یہ صرف اس صورت میں ہو گا جب بھارت کے لوگ اس کے لیے جدو جہد کریں۔تاہم، سیاسی تجزیہ کار انتباہ کرتے ہیں کہ بد عنوانی کے خلاف جنگ صرف ایک پوائنٹ کے ایجنڈے سے یعنی ہزارے کے مطالبے کے مطابق ایک طاقتور محتسب کے تقرر سے نہیں لڑی جا سکتی۔یہ تشویش بھی ہے کہ اس قسم کے طاقتور محتسب سے جمہوریت کے موجودہ اداروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہزارے نے احتجاج کا جو طریقہ اختیار کیا ہے یعنی غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال، وہ ایک طرح کا بلیک میل ہے۔ وہ پارلیمینٹ کے قوانین بنانے کے حق کو چیلنج کر رہے ہیں۔ تا ہم یہ بات سب مانتے ہیں کہ بھارت میں سرکاری نظام کو صاف کرنے کی جنگ کو روکا نہیں جا سکتا۔