گو کہ موجودہ حکومت کا اقتدار ختم ہونے میں ابھی پورا صرف ایک سال ہی باقی رہ گیاہے اور اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت اِسے بھی جیسے تیسے گزار نے کے لئے اپنی اِنتہاکو پہنچتی ایک ایسی مہم جوئی شروع کرچکی ہے کہ اب جس کی وجہ سے یہ ہر محاذ پر اکیلے ہی کھڑی نظرآرہی ہے اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے حکمرانوں کی طرف سے اعلی اداروں سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور تصادم والی صورتِ حال نے ملک کے سیاسی درجے حرارت کوگرمادیاہے اور اِس گرماگرم سیاسی ماحول میں پیداہونے والی غیر یقینی صورت حال دس ،گیارہ اور بارہ جنوری کوتو انتہاپر پہنچی دکھائی دے رہی تھی۔ اگرچہ اِس موقع پر ملکی سلامتی کی مجموعی صورتِ حال کے علاوہ حکومت کی طرف سے فوجی قیادت پر الزامات، میموگیٹ اسکینڈل سمیت مختلف امورپرتبادلہ خیال کرنے کے لئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی زیرصدارت دوروزہ کورکمانڈرز کانفرنس جمعرات کو جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی اِس حوالے سے مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پہلے روز جمعرات کا اجلاس جوتقریبا10گھنٹے تک جاری رہا جس میں ملک کی اعلی فوجی قیادت نے اِس عزم کا بھر پوراعادہ کیاکہ آئین و قانون کی مکمل پاسداری کی جائے گی ، خلاف آئین کوئی قدم نہیں اٹھایاجائے گا اور قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی اور اجلاس اگلے روز جمعہ تک کے لئے ملتوی کردیاگیا۔ جس کے بعدیہ کہاجارہاتھا کہ این آر او اور میموگیٹ کے معاملے میں حکومت بغیر سوچے سمجھے ملک کے اعلی اداروں سے تصادم کی راہ پر چل کر تنہارہ گئی ہے تو دوسری جانب اِس جمہوری حکومت اور اِس کے حکمرانوں نے اپنی نہ تجربہ کاری کی وجہ سے ملک و قوم کو تجربات کی بھٹی میں جھونک دیاہے جس کے منفی اثارات ملک کے طول ارض میں باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں اور یوں اِن ناتجربہ کارحکمرانوں کی اپنی نااہلی کی وجہ سے موجودہ جمہوری حکومت اب گئی تو تب گئی …مگر گیارہ جنوری کو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کا خیال کیاجارہاتھا۔ جبکہ سیاسی مبصرین اِس سارے معاملے کی ایک وجہ یہ بتارہے ہیں کہ حکمرانوں نے تھوک کر خود ہی چاٹ لیا اور جب اِنہوں نے اپنے بیان پر خود ہی ندامت کرتے ہوئے مصالحت پسندانہ اور معذرت خواہانہ لب و لہجہ اپنالیاتو حکومت کا قلع قمع کرنے والے کسی ادارے نے بھی کوئی انتہائی قدم نہ اٹھایا جس کی وجہ سے حکومت کو ایک مہلت اور مل گئی ہے۔اور اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت اِس مہلت سے کتنافائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے اور خودکو اعلی اداروں سے تصادم سے بچاپاتی ہے یا نہیں۔ بہرکیف ! ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ برسراقتدار جماعت کے کرتادھرتاوں کی جانب سے ملک کے اعلی اداروں کے درمیان پیداہونے والی غلط فہمیوںاور تصادم کی بڑی وجہ بننے والا صدر آصف علی زرداری کا وہ انٹرویو ہے جو صدر نے اپنے ہی ملک کے ایک نجی ٹی وی کو دیااوراِس میں بعض ملکی سنگین معاملات بارے میں دیئے جانے والے اعلی عدلیہ کے فیصلوں پر پارلیمنٹ کے فیصلوں اور مشوروں کوفوقیت دینے کا عندیہ دیاتھااور اِسی طرح پیپلز ڈیلی آن لان وہ چینی اخبار تھا جِسے اِس سے پہلے پاکستانیوں کی اکثریت نہیں جانتی تھی کہ یہ کوئی چینی اخبار ہے مگر جب ہمارے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا ایک انٹرویواِس اخبار میں چھپااور اِس انٹرویو میں وزیراعظم کے اعلی اداروں اور اِن کے سربراہان کے بارے کہے گئے الفاظ اور اِسی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجس طرح ملکی سیاست میں محاذآرائی کا ماحول پیداہو اتو اِس کے بعد یہی خدشات پیداہوگئے تھے کہ حکومت کے اتحادی بھی اِس صورتِ حال میں اِس کا ساتھ چھوڑگئے ہیں( جس کا ثبوت بھی حکومتی اتحادیوں نے حقیقت میں ایساکرکے دے دیااورحکومت پر یہ بھی واضح کردیاکہ ملک میں قانون کی بالادستی اور اعلی اداروں عدلیہ اور پاک فوج سے تصادم سے حکومت کو اجتناب برتناچاہئے اور یوںحکومت اعلی اداروں سے اپنی منہ توڑ اور سینہ زوری کی وجہ سے تنہارہ گئی ہے اور آج گیارہ جنوری کو حکومت اِدھر یاادھر ہوجائے گی اور کسی بھی وقت ملکی الیکٹرانک میڈیاسے ایک آواز آئے گی۔ میرے ہم وطنو! اسلام علیکم ! یہ اِنتہائی افسوس کا مقام ہے کہ چار سال سے اقتدار میں رہنے والے حکمران ملک کو مسائل سے نکالنے اور اِسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں ناکام رہے اورانہوں نے اپنے اقتدار کے چار سالوں میں ملک سے توانائی ،بجلی ، گیس کے بحرانوں پر قابوپانے اور کرپشن ، مہنگائی، بیروزگاری اور قتل وغارت گری کو ختم کرنے اور اِسی طرح ملکی اداروں ، ریلوے، ائیرلائن اور اسٹیل مل کو تباہی سے بچانے کے بجائے الٹا اِن کی بربادی میں اپنا کلیدی کردار اداکیا اِس بناپر پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی ہے اور ملک میں ایماندار اشخاص پر مشتمل 90دن کے لئے ایک نئی عبوری حکومت کا قیام عمل میںلایاگیاہے جس کا کام اپنی نگرانی میں صاف وشفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ اور اِس خطاب کے بعد قوم پھر نئے انتخابات کی راہ پر چل پڑتی اور اِن انتحابات کے ذریعے قوم اپنے لئے پھر نئے حکمرانوں کے چناومیں لگ جاتی مگر ایسانہیں ہوااور سیاسی مبصرین اور اپوزیشن کے سب خدشات ووسوسے اور محمصے دھرے کے دھرے رہ گئے اور پھر وہی ہوا جیساہوتاآیاہے اور حکومت کی طرف سے اٹھنے والی سیاسی غلط فہمیوں کا غبار یکدم سے ختم ہوگیا اور معاملات معمول پر آ گئے۔ اگرچہ اِس منظر و پس منظر میں اب بھی بعض سیاسی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ ملک میں آنے والا سیاسی بحران جو اعلی اداروں کے درمیان محاذآرائی اور کشیدگی کی صورت میں سامنے آیاہے یہ جزوقتی طور پر دب توگیاہے مگر ٹلانہیں ہے اور خدشہ ہے کہ یہ بحران 16جنوری یا کسی اور دن ایک بار پھر سنگین شکل میں ابھرے گاجو ملک میں پیداہونے والی موجودہ کشیدہ صورتِ حال کے حوالے سے شائد فیصلہ کن ہو۔ بہرحال !چلو اچھاہی ہوا کہ11جنوری خیروعافیت سے گزرگیاجس کی وجہ سے حکومت کو اپنے کردار کو سنوارنے اور اِسے درست کرنے کے ساتھ ساتھ اعلی اداروں کے ساتھ روارکھے گئے اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کا ایک موقع اور مل گیاہے۔ ہم سمجھتے ہیںکہ اِس کے باوجود بھی اگر ہمارے حکمرانوںنے اپنااحتساب خود نہ کیاتو پھر یہ اپنی تباہی کے خود ہی ذمہ دار ہوں گے۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ گیارہ جنوری کے روز پل پل بدلتی سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے سیاسی مبصرین کاایک خیال یہ بھی تھا کہ موجودہ لولی لنگڑی جمہوری حکومت کے مزیدقیام کے لئے یہ دن انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے اور اِسی کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناتھا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے اپنے قول وفعل کی وجہ سے اپناوجود خودہی بھاری کرلیاہے وہ تو اچھاہواکہ اِس دن ملکی اعلی اداروں کی جانب سے کیاجانے والا لچک کا ذراسا مظاہرہ حکومت کے لئے آکسیجن کا کام کرگیا ورنہ تو حکمرانوں نے اپنی زبان درازی سے خود کو سیاسی شہیدبنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس کی وجہ بتاتے ہوئے سیاسی مبصرین کایہ بھی کہناہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے حکمرانوں کی جانب سے ملک کے اعلی اداروں کے درمیان محاذآرائی کی پیداہونے والی گھمبیرہوتی صورتِ حال میں جو شدت آتی جارہی ہے وہ ملک میں کسی دوسری قوت کو متحرک کرسکتی ہے اور یہ دوسری قوت وہ ہے جس کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہی قوت ہے جس نے ہمارے ملک میں اپنے اقتدار کی صورت میں ایک لمبے عرصے تک اپنی حکمرانی کی ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن دنوں سیاسی کھینچاتانی میں برسراقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کا اپنااپناسیاسی نقطہ نظر چاہئے کچھ بھی ہو مگر آج اِس سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اِس پوائنٹ پر ضرور متفق نظرآتی ہیں کہ یہ کسی بھی صورت میں جمہوریت کے علاوہ کسی دوسری قوت کو غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام کے ذریعے اقتدار کی کنجی اِس کے حوالے نہیں ہونے دیں گیں چاہئے اِنہیں اِس کے لئے اپنی جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑ جائے۔ اور اب آخر میں ہمار اخیال یہ ہے جیساکہ دوسری جانب ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں تیزی سے تبدیل ہوتے حالات واقعات کے پیشِ نظر دوسری قوت یہ بات پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اِسے جمہوریت پر کاری ضرب لگانے اور خود کو اقتدار کی مسند پر بیٹھانے کا کوئی شوق نہیں ہے اِس کا کہناہے کہ یہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا پوراموقع دے گی اور کوئی خلاف آئین قدم نہیں اٹھایاجائے گامگر شرط یہ ہے کہ موجودہ حکمران آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنے دائرے کار میں کام کریںاورملکی اعلی اداروں عدلیہ اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرنے اورتصادم کی راہ اپنانے اور بے مقصد کی ضد پر قائم رہنے سے گریزکرتے ہوئے اپنے جائز اختیارات کے ساتھ اپنی مدت پوری کریں تو یہ اِن کے حق میں بھی بہتر ہے اور ملک و قوم کے لئے بھی اچھا شگون ہوگا۔ورنہ یہی دوسری قوت جس نے اب تک موجودہ حکمرانوں کی جانب اپنے متعلق منفی پروپیگنڈے کے باوجود صبروتحمل کا مظاہرہ کئے رکھایہ قوت انتہائی اقدام اٹھانے میں ذرابرابر بھی ھیل حجت کا مظاہر ہ نہیں کرے گی۔اور وہ کچھ کرگزرے گی جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتاہے۔چاہئے کوئی سیاست دان یا وزیراعلی اپنی ناسمجھی اور غیرسنجیدہ طبیعت کے باعث ملکی سنجیدہ معاملات کے حوالے سے اپنی اِس قسم کی انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے یہ کیوں نہ کہتارہے کہ گرمی میں حکومت کو گرمی لگتی ہے اور سردی میں سردی لگتی ہے اور آج حکومت جو کچھ بھی کررہی ہے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے الٹ پلٹ کر رہی ہے۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم