یکم مئی مزدروں کا عالمی دن ہے یہ میں بچپن ہی سے جانتا ہوں ۔میں نے یکم مئی سے پہلے بہت کوشش کی میں اس موضع پرکچھ لکھوں اور اپنی تحریر میں اپنے مزدور بھائیوں سے اظہار یکجہتی کروں لیکن تمام تر کوشش کے باوجود یکم مئی تک میں اس موضع پر کچھ نہیں لکھ سکا۔جب میں 30اپریل رات دیر گئے تک یہی بات سوچتے سوچتے سوگیا کہ ہم کس طر ح اپنے مزدور بھائیوں سے اظہار یکجہتی کر سکتے ہیں ۔میں نے ایک خواب دیکھا جس کا منظر شاید میں لفظوں میں نہ بیان کر سکوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر میں آپ کو وہ خواب سناتا ہو ں تو نہ صرف آپ بلکہ میں بھی خود کو دیوانہ کہوں گا ۔لیکن پھر بھی میں آپ کو وہ خواب ضرور سنائوں گا لیکن سنائوں گا کالم کے آخر میں ۔پہلے میں بات کرنا چاہوں گا۔
یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے متعلق ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کو منانے کی شروعات بھی اور بہت سے عالمی دنوں کی طرح امریکہ سے ہی ہوئی تھی جب 1884ئ آج سے تقربیا 128سال پہلے امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدوروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے اوقات کار 16گھنٹے سے کم کرکے 8گھنٹے کیے جائیں تو امریکن انتظامیہ نے مزدوروں کا یہ مطالبہ برے طریقے سے رد کر دیا جس کے بعد مزدوروں نے احتجاج کا فیصلہ کیا دوسال تک یہ معاملہ انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان جاری اور 1886ء تک مزدور وں کی احتجاجی تحریک زور پکڑگئی 3مئی کے جب مزدوروں کی طرف اپنے مطالبے کے حق میں ایک پرامن ریلی نکالی گئی جس میں مزدوروں نے سفید پرچم اٹھا رکھے تھے جن کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔مزدوروں کی اس پرامن ریلی پر مقامی پولیس نے گولیاں برسا دیں جس کے نتیجہ میں چار مزدورہلاک ہوگئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ مظاہرین کی طرف سے ایک دستی بم پھینکا گیا تھاجس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا ۔پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ بنا کر آٹھ مزدوررہنمائوں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ۔ جن میں سے چار کو 11نومبر1887ء کو پھانسی دے دی گئی اور ایک نے جیل میں خود کشی کرلی جب کہ باقی تین کو معافی دے کر رہا کردیا گیا ۔تب سے یکم مئی کا دن آج دنیا بھر میں مزدوروں کی اس عظیم قربانی کی یا د میں منایا جاتا ہے ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پچھلی ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ہمیں یہ دن مناتے ہوئے ۔ہم ہر سالہ یکم مئی کے دن مزدوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔لیکن اس کے باجود مزدور آج بھی سولہ گھنٹون سے دیادہ کام کرتا ہے ۔لیکن پھر بھی مزدور کے گھر میں دو وقت کی روٹی مشکل سے ہی پکتی ہے۔
اکثر مزدور اپنے گھر کے معالات چلانے کے اپناخون اور گردے بیچتے ہیں اور جب اتنے سے بھی بات نہ بنے تو اپنے بچوں کو بھی فروخت کرتے نظر آتے ہیں اوراگر پھر بھی کانہ چلے تو مزدور کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے جی ہاں خود کشی کا راستہ ۔ اس پر لمحہ فکریہ ہے کہ میرے وطن کا مزدور تو دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنا خون،گردیاور بچے تک بیچنے پر مجبور ہے۔ لیکن حکمرانوں کو دنیا کی سب سہولتیں دستیاب ہیں وہ بھی سرکاری خرچے پریعنی عوام کی خون پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں حکمران ۔کتنے مزے کی بات ہے کہ بات ہے کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے لے کر آج تک پاکستان اور پاکستانی عوام پرتوقرض بڑھتا رہاہے ۔لیکن محب وطن اور قربانیاں دینے والے حکمران طبقے کے اثاثہ جات لگاتار بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔غریب مزدور کے گھرمیں دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں اور حکمران دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں ،مزدور غریب خون اور گردے بیچ کر راشن خریدتا ہے اور حکمران دنیا کے مہنگے ترین ہسپتالوں میںعلاج کرواتے ہیں ۔مزدور غریب زندہ رہنے کی کوشش میں اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہے اور حکمرانوں کے بچے دنیا کے مہنگے ترین سکولوں اور کالجوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
مزدور غریب فٹ پاتھ پر سوتا ہے اور حکمران ذاتی محلات ہونے کے باوجود سرکاری خرچے پر دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں ۔ کچھ اور مہنگی ترین چیزوں کا ذکر کرنے سے پہلے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان کا مزدور طبقہ یہ بات جانتا ہے کہ سرکاری خرچ کیا ہوتا ہے اور سرکار کیا ہوتی ہے ۔مجھے نہیں لگتا ہم پاکستانی عوام اس بات سے واقف ہیں ۔کیونکہ اگر ہم اس بات سے واقف ہوتے تو حکمرانو ں کا پیٹ پھاڑ کر اپنا حق نکال لیتے ۔میرے نزدیک سرکار ملکیت ہے پاکستان کے 18کروڑ عوام کی اور سرکاری خزانہ ہے سرکار، کا یعنی عوام کا جس کو لوٹ کر حکمران عیاشیاں کرتے ہیں۔
دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں حکمرانوں کے زیراستعمال ہیں اور عوام کو ایک سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لئے گھنٹوں سڑک پر گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔غریب پاکستان کے امیر حکمرانوں کی عیاشیاں تو گنی ہی نہیں جاسکتیں لیکن سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ 18کروڑ عوام تو ترستی ہے صاف پانی پینے کو اور حکمران (اسلامی جمہوریہ پاکستان ) کے حکمران دنیا کی مہنگی ترین شراب پیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی ہر سال یکم مئی کے دن یوم مزدور ضرور مناتے ہیں ۔ہرسال یکم مئی کے دن حکمران بڑے ،بڑے سیمناروں میں بڑھی ،بڑی تقریر یں اور شوشے چھوڑتے ہیں لیکن عملاجو کچھ کرتے ہیں اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ مزدوروں کو اپنا حقوق کے لیے ایک بار پھر میدان میں آنا پڑھے گا ۔بہت ظالم ہیں یہ لو گ مانگنے سے کبھی بھی مزدورکا حق نہیں دینے والے مزدور کو اپنا حق چھیننا پڑھے گا۔لیکن جو خواب میں نے دیکھا وہ حقیقت سے کچھ زیادہ ہی دور ہے ۔خواب میں ،میں نے دیکھا کہ یکم مئی کے لیے ایوان صدر سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں وفاق اور تمام صوبوں کو ہدایات جاری کی گیں ہیں کہ تمام وفاقی اور صوبائی وزیراور مشیر یکم مئی کے دن مزدوروں کے ساتھ ان کے اڈوں پر جا کرمزدوروں کیساتھ بیٹھیں اور ان کے ساتھ سارا دن مزدوری کریں تاکہ حکومت کو مزدوروں کی مشکلات کا اندازہ ہوسکے۔
اس حکم نامے پر سختی سے عمل کرنے کو کہا گیا ہے۔جس کے بعد میں نے دیکھا کے اسلام آباد میں مزدوروں کے اڈے پر ایک طرف وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سفیدی کرنے والا برش اور ایک ٹین کا ڈبہ لئے بیٹھے ہیں ،ایک طرف رحمن ملک حجام کی دوکان سجائے بیٹھے ہیں ،ایک طرف ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بیلچا لیے بیٹھی ہیں ،ایک طرف نوید قمر بجلی چیک کرنے والا ٹیسٹر اور پلاس لیے بیٹھے ہیں ،اسی طرح سارے وفاقی وزرا ء مزدوربنے مزدوروں کے اڈے پر موجود ہیں ،لیکن اس وقت میری خوشی کی کو ئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ جناب صدر آصف علی زرداری بھی ایک طرف اپنا گرمالا اور ساہل لیے مستری کے روپ میں کام ملنے کا انتظار کررہے تھے ۔اس کے بعد میں لاہور پہنچا تو وہاں بھی ساری پنجاب کابینہ بمعہ خادم اعلیٰ مزدوروںکے اڈے پر براجمان تھی ۔ابھی میں خواب میں اور بھی خوش ہوتا لیکن ٹھیک اسی وقت میرے بیٹے نے مجھے جگا دیا اور بتایا کہ دودھ والا آیا ہے دودھ کے پیسے مانگ رہا ہے۔تحریر:امتیازعلی شاکر