اِسلام میں معاملات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جس کسی نے بھی اللہ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا،دل دُکھایا،غیبت کی،چغلی کھائی ، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا،تو یہ ظلم معاف نہیں ہوں گے۔ عدل حکمرانی کا سب سے بڑا شیوہ ہے۔ حاکم ،سربراہ چاہے گھر،علاقے،ادارے یا مُلک کا ہے ۔چھوٹا ہو یا بڑا عدل اُس کا سب سے کڑا امتحان ہے۔ ارشادِربانی ہے: ترجمہ -:(کہ اے ایمان والو! مضبوطی سے انصاف پر قائم رہو)۔
چیف جسٹس کے بیٹے کا کچھ لوگوں سے لین دین تھا۔ کسی وجہ سے معاملات بگڑ گئے ۔ چیف جسٹس کے بیٹے کا خیال تھا کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور میرا حق نہیں دیا گیا۔ بیٹے نے سارے حالات کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے بعداپنے والد سے مشورہ مانگا۔ کہ اگر کامیابی کی اُمید ہو توپھر میں عدالت میں دعویٰ دائر کردوں۔ ورنہ خاموش رہوں۔ باپ نے کچھ دیرسوچنے کے بعد کہا بہتر ہے دعویٰ کردو۔ بیٹے نے باپ کے مشورہ کے بعداس یقین ِ کامل کے ساتھ کہ مقدمہ میں جیت اس کی ہوگی دعوی ٰ دائر کردیا۔ مقدمہ پیش ہوا ! بیانات ، شہادتیں لی گئیں بحث مباحثہ کے بعد قاضی نے جو مقدمے کے ایک فریق کاباپ بھی تھا، مقدمہ کا فیصلہ صادر کردیا۔ فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہوا۔جیت چیف جسٹس کے بیٹے کی نہیں دوسرے فریق کی ہوئی۔ معلوم ہوا منصف ، منصف ہوتا ہے کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا آقا، کسی کا نوکر نہیں۔
Arsalan Chaudhry case
انفرادی سطح سے اجتماعی معاشرے اور قومی سطح پر چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ہر شعبہ اور ہر سطح پر سنجیدگی سے ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے لیکن !آج بھی ہم اجتماعی طور پر دوسروں کو برا کہنے، دوسروں کی برائی سننے، لوگوں کے بھید لینے، جھوٹی باتیں گھڑنے اور سب سے پہلے ،کے چکر میں، کسی بھی شخصیت ،مرتبہ کا لحاظ کئے بغیر، بلاتحقیق غلط خبریں اُڑانے میںلذت محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب صورت ِ حال یہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر بڑے سے بڑے عہدہ دار تک کسی بھی جگہ ،مقام اور حتی کہ انٹر نیشنل پلیٹ فارم پرپہلے تو بغیر سوچے سمجھے بڑے فخر سے بیان داغ دیتے ہیںپھربھلے تردید اور وضاحتی بیان سے سب کے سامنے خاک آلود ہونا پڑے۔
Iftikhar Muhammad Chaudhry
فیصلہ کے بعد گھر پہنچے تو بیٹے نے عرض کی ! ابا جان اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا اور آپ مقدمے کا فیصلہ میرے خلاف کردیتے تو مجھے ذرا بھی افسوس نہ ہوتا۔ لیکن میں نے آپ سے پوچھا، آپ نے مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا، پھر میرے خلاف فیصلہ کردیا۔ قاضی نے اپنے بیٹے سے کہا۔ جب تم نے مجھ سے مشورہ کیا تو تفصیلات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ تم حق پر نہیں ہو۔ اگر اُس وقت تم کو یہ بات بتا دیتا تو ان لوگوں کا حق مارا جاتا۔ میرے بیٹے ! تو مجھے اُن لوگوں سے زیادہ پیارا ہے۔ لیکن اپنا ایمان اور آخرت مجھے تجھ سے بھی زیادہ پیاری ہے۔یہ واقعہ ابن ِ سعد نے طبقات کی چھٹی جلدمیں قاضی شریح کے حالا ت میں لکھا ہے ۔کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت سے عبدالملک بن مروان کے عہد تک تقریباََ 60برس چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہنے والے شریح بن حارث تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین، پانی، ہوا، چرند، پرند، آدمی، جِنات سب پر حکومت عطاء فرمائی تھی۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ اپنا ایک جن پیامبر کہیں بھیجا۔ اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سے نکلنے سے پہلے آسمان کی طرف سر اُٹھایا ۔ تھوڑی دیر تک کچھ دیکھتا رہا پھر خوب اپنا سر ہلایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا۔۔۔کیا بات ہے۔ جن بولا مجھے فرشتوں پر تعجب ہورہا ہے جولوگوں کے سروں پر ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا تعجب کس بات پر ؟ اس نے کہا لکھے جارہے اور ایک لمحہ کے لئے نہیں رُکتے۔ پھر بولا مجھے ان فرشتوں سے زیادہ اِن لوگوں پر تعجب ہورہا ہے۔جوانہیں تھکائے دے رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کررکھے ہیں جوہربات اور ہمارے اعمال لکھتے جاتے ہیں۔ ہم ایسی بے کار اور بے ہودہ باتیں کرنے والے ہیں کہ نہ ہمیں چین، نہ دوسروں کو چین لینے دیتے ہیں۔
کسی پر مصیبت پڑے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مصیبت دور کردیتا ہے،دعائوں سے مرض کا ازالہ ممکن ہے مگراحمق پن، یابیوقوفی تو اللہ کا قہرہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر قہرہوتو پھراس کا کوئی علاج نہیں۔ اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میںامن سکون عطاء فرما آمین ثم آمین یارب العالمین۔تحریر: محمد اکرم عوان abu_ali65@hotmail.com