گھر سے کچھ سامان لینے کے لیے نکلا تھا گلی میں چلتے چلتے آ واز سنائی دی ۔آواز نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ بلکہ آوازیں تھیں غور کیا تو پتا چلا دو عدد خواتین ہیں اور کسی اہم مسئلے پر گفتگو چل رہی ہے ۔تجسس ہوا سنا جائے کہ کونسے اہم مسئلے پر بات ہو رہی ہے ۔شاید!کوئی کام کی بات مل جائے ۔۔۔ٍ. کان لگائے تو پتہ چلا کہ محترمہ وینا ملک کا ذکر خاص ہو رہا تھا اور کن الفاظ میں ہو رہا تھا۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
کئی دنوں سے یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے۔ میڈیا نے اودھم مچا رکھا ہے بابا خدا کی پناہ! یہ ٹی وی اور اخبار والے تو بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔ٹی وی پر عورتیں آدھے کپڑے پہن کر آتی ہیں۔ اب تو رمضان شریف جیسا مبارک مہینہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ اب!وینا ملک ہمیں بتائے گی کہ ہم نے توبہ کیسے کرنی ہے؟ کل کو نرگس ہمیں اسلام کے شرعی مسئلے بتانا شروع کر دے گی۔
یہ باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ اب کئی کالم صرف اس بات پر لکھے گئے ہیں کہ بھارتی اداکار کی موت کی خبر کو اچھی کوریج دی گئی ہے۔ بھارتی اداکار کی موت پر میڈیا کی جانب سے نوحہ گری کی گئی ہے جبکہ برما کے مسلمانوں کی ایک خبر تک نہیں چلائی گئی۔ سوشل ویب سائٹس پر اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ تو جواب یہ ہے کہ میڈیا ہمیشہ وہی دکھاتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔برما کے مسلمانوں کے قتل عام کی خبر کون دیکھتا؟کیا تب بھی ٹی وی چینلز کو اتنی ریٹنگ ملتی جو بھارتی اداکار کی موت کی کوریج کرنے پر ملی۔ اب میرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ ان شریف لوگوں سے سوال یہ ہے کہ وینا ملک کو سپر سٹار بنانے والے کون ہیں؟اور ہندی فلمیں دیکھتے ہوئے تمہیں رتی بھر شرم نہیں آتی اگر ان کے اداکار کی موت کی خبر کو میڈیا نے کوریج دی تو کونسا طوفان آگیا؟؟سارا سارا دن ڈرامے اور فلمیں ان کی دیکھتے ہو اور الزام سارا میڈیا پر رہی بات میڈیا کی بے جا آزادی کی تو اس کا جواب بہت آسان ہے۔
جب معاشرہ متاثر ہوتا ہے تو معاشرے کاہر طبقہ اس لپیٹ میں آتا ہے جس ملک میں استاد تنخواہ تو سرکار سے لیتے ہوں مگر ٹیویشنیں پرائیوٹ پڑھاتے ہوں،جس ملک میںڈاکٹر اٹھائے گئے حلف کے بالکل برعکس رویہ رکھتے ہوں،جس ملک میں تاجروں کی یہ حالت ہو کہ وہ ذخیرہ اندوزی کے لیے رمضان جیسے مقدس مہینے کا انتظار کرتے ہوں اور مہنگے داموں ضرورت اشیا فروخت کر کہ اپنی تجوریاں بھرتے ہوں،جس ملک کے سیاستدانوں کا یہ حال ہو کہ وہ سیاست اپنے آپ کوخوشحال اور امیر کرنے کہ لیے کریںاور اقتدارمیں آکراپنے رشتہ داروںاور حواریوںکو نوازیں۔جس ملک میںعوام کہ شعور کا عالم یہ ہو کہ وہ جعلی ڈگریوں والوں اور فراڈیوں کو اکثریتی ووٹوں سے منتخب کروائییں۔
veena malik
ایسے ملک میں اور ایسے حالات میں ہم لوگ صحافیوں سے اتنی اچھی امیدیں کیوں وابستہ کر لیتے ہیں؟کہ وہ لفافے نہیں لیں گے،وہ بد دیانتی نہیں کریں گے،وہ ہمیشہ سچ دکھائیں گے۔جب ہر شعبے میں کرپشن کا بازار گرم ہو تو میڈیا کا شعبہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟؟رہی بات کہ الیکٹرانک میڈیا ایسی چیزیں کیوں دکھاتا ہے تو بات وہی پرانی ہے کہ میڈیا ہمیشہ وہی دکھاتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے جس کمرشل میں کوئی نیم برہنہ لڑکی نہ ہو لوگ اس کمرشل کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا شخص یہ خواہش تو رکھتا ہے کہ وہ دوسروں کی بہن،بیٹی کو تو بے پردہ دیکھ سکے لیکن اس کی اپنی بہن،بیٹی باپردہ اور محفوظ رہے۔
ہہم ہمیشہ دوسروں پر شریعت نافذ کرنے میں دیر نہیں لگاتے لیکن معاملہ جب اپنی ذات کا ہو تو ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔ اس سارے بگاڑ میں کوئی ایک شخص یا کوئی ایک ادارہ ذمہ دار نہیں اس سارے بگاڑکی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔اس وقت دوسروں کو کوسنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔تحریر: فرخ شہباز