عالمی ادارہ صحت نے صحت آلودگی اور تعلیمی پسماندگی کے حوالے سے ضلع قصور کو نا صرف دنیا بلکہ پنجاب کے آخری تین پسماندہ ترین اضلاع کی لسٹ میں شامل کر دیا ہے ۔ڈبلیو ایچ او کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ سے زائد سے آبادی والے ضلع قصور میں صرف چوبیس فیصد افراد کو سڑکوں کی سہولت حاصل ہے ایک ہزار میں 185مائیں زچگی کے دوران محض اس لیے مر جا تی ہیں کہ انہیں مناسب طبی سہولتیں نہیں مل پاتی ۔اور صرف 36%آبادی کے پاس اپنے ذاتی گھر ہیں ۔آبادی کی اکثریت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے غربت زہنی دبائو کی وجہ سے 84%لوگ دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ضلع کی 74%آبادی غربت کی لائن سے نیچے جا چکی ہے ضلع میں 82%گھرانوں کے پاس سونے کے لیے صرف ایک کمرہ ہے ۔55%بچے پانچویں جماعت سے پہلے ہی سکول چھوڑ جا تے ہیں اور صحت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سہولتوں کے حوالے سے قصور پنجاب کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کے اندر کرپشن اور بد عنوانی کی انتہا ہے ۔مخصوص فیملیز کی سیاست پر اجارا داری کی وجہ سے لوگوں کے نفسیات غلامانہ بن چکی ہے ۔حالانکہ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو قصور صدیوں تک باغیوں کی سرزمین رہی ہے ۔شاعری ،میوزک اور صوفی ازم اس خطے کی پہچان رہے مگر آج کے حالات اس کے بالکل متزاد ہیں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق قصور میں آلودگی عالمی معیار سے تین گناہ سے زائد ہو چکی ہے ۔جس کی وجہ سے شہریوں کی اکثریت کینسر ،ہائی بلڈ پریشر ،سینے اور دیگر امراض کے علاوہ چڑچڑے پن اور سماعت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں ہر تیسرا شخص آلودگی کے باعث پیدا ہو نے والی کسی نہ کسی بیماری کا اسیر ہے WHOکی رپورٹ کے مطابق آلودگی کا عالمی میعار 65DBہو نا چاہیے مگر ضلع قصور میں یہ تین گنا سے زائد ہو گیا ہے۔
اس وقت قصور میں ٹینریوں کے مالکان کی بیوروکریسی کے ساتھ ملی بھگت سے نکلنے والے زہریلے پانی نے شہر اور دیہات کی بڑی آبادی کو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رکھا ہے پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے ٹینریوں کے آلودہ پانی کو صاف کر نے کے لیے جو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا اس کی کارکردگی صفر ہے لہٰذا اب ظاہری طور پر تو اس جان لیوا پانی کو کشید کیا جا رہا ہے مگر عملاً یہ پانی ماضی جتنا ہی جان لیوا اور کینسر زدہ ہے ۔ماہرین کے مطابق ٹینریز مالکان اور بیورو کریسی کی ملی بھگت کے باعث لوگوں کو کو دھوکے میں رکھا جا رہا ہے اور صاف پانی خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے لوگ یہی زہریلہ پانی پی کر مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں بتایا گیا ہے کہ آلودگی کے خلاف کام کر نے والے سرکاری ادارے ٹینریز مالکان سے باقاعدہ بھتہ لیتے ہیں اسی طرح محکمہ محنت اور سوشل ویلفیئر کے افسران کی منتھلیاں بھی اس گھنائونے جرم کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے استحصال کا موجب بن رہی ہیں رپورٹ کے مطابق اس وقت ضلع قصور کے 82%لوگ زہریلہ اور کینسر زدہ پانی پی رہے ہیں۔دوسری طرف قصور میں قائم تین سو سے زائد چمڑا تیار کرنے والی فیکٹریوں کا زہریلا پانی صاف کرنے کی غرض سے نصب کیا گیا۔
ایشیا ء کا سب سے بڑا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بیوروکریسی کی نااہلی کی وجہ سے بند ہو گیا لاکھوں لیٹر کینسر زدہ پانی پانڈو کی ڈرین سے ہوتا ہوا دریا ستلج میں پھر سے گرنے لگا ہے ۔جس سے ہزاروں افراد کینسر ،پھیپھڑوں ،معدے اور دوسری جان لیوا بیماریوں کے علاوہ جلدی امراض کا شکار بن گئے ہیں۔سونا اگلنے والی ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی ہزاروں خاندانوں کو روزگار دینے کی بجائے بھوک بانٹنے لگی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورحکومت میں 52کروڑ روپے کی لاگت سے ایشیاء کا یہ سب سے بڑا پراجیکٹ تعمیر کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد چمڑا تیار کرنے والی فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے پانی کو صاف کر کے دریا ستلج میں ڈالنا تھا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کثیر سرمائے سے تیار ہونے والا یہ پراجیکٹ قصور کے لئے سفید ہاتھی ثابت ہوا ہے عرصہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پراجیکٹ درست طور پر پانی صاف نہیں کر رہا جبکہ چند روز قبل محکمہ ماحولیات کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں ثابت کر دیا کہ ٹینریز سے نکلنے والے پانی سے جو گیسیں خارج ہوتی ہیں ان میں امونیا، ہائیڈروجن، سیلفائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسی ایسی مہلک گیسیں شامل ہیں جو ان بیماریوں کو جنم دیتی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ہزاروں افراد موت سے پہلے ہلاک ہو جاتے ہیں بلکہ لاکھوں افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
پراجیکٹ کو چلانے کے لئے قریباً پندرہ ہزار روپے بجلی کا بل ادا کرنا پڑتا ہے ۔اس بل کو بچانے کے لئے متعلقہ انتظامیہ نے کئی ماہ سے اس پراجیکٹ کو بند کر دیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دریائے ستلج میں گرنے والا پانی نہ صرف آبی حیات کی موت کا باعث بن رہا ہے قصور شہر اور نواحی علاقہ جات میں پھیلنے والا یہ پانی اور اس سے اٹھنے والی گیسیں معصوم شہریوں کو مختلف امراض میں مبتلا کر رہی ہیں۔ جبکہ اس زہریلے پانی کی وجہ سے کسانوں کی زیر کاشت زمینیں اور فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور کے ۔ ایم ۔ ایس ڈاکٹر وقار صادق کا کہنا ہے کہ زہریلا پانی پینے کی وجہ سے قصور اور دیہات کے لو گ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ڈاکٹر وقار کے مطابق یہ پانی زیر زمین جاکر پینے والے پانی کا حصہ بن جاتا ہے اور قصور کی بری آبادی یہ زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وسائل اور ڈاکٹرز کی کمی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر بیمار ہونے والے افراد کے علاج کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے مینجر شمی حسن کا کہنا ہے کہ پلانٹ میں زہریلے کیمیکل اور کروم آنے کی وجہ سے پلانٹ کی مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے اور اسے اپ گریڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مہر اکبر نے انکشاف کیا کہ اس پراجیکٹ پر تعینات ایک سو سولہ ملازمین ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ کے طور پر وصول کر رہے ہیں۔