یہ کیسی آنکھ تھی جس نے سپر پاور امریکہ کو کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھا تھا بلا شبہ یہ آنکھ بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی یہ کتاب ایک عرصہ تک میرے شیلف میں پڑی رہی ایک دن غالبا کوئی تاریخی حوالہ ڈھونڈنے کی غرض سے پھر شیلف کی کتابوں کو دیکھ رہا تھا نظر پھر آکر اسی کتاب پر رکی ”ایک آنکھ میں امریکہ ” نام سے کوئی سفرنامہ ہی لگتا ہے تجسس سا پیدا ہو گیا تھا اور کسی کی خوبصورت تصویر ذہن پر چھلانگ لگا کر ابھری تھی کچھ یادیں جیسے پھر سے تازہ ہو گئیں تھیں۔ اس کتاب کو یہی روکتیں ہیں۔
فاروق عادل کا نام کارزار صحافت میں ایک پہچان رکھتا ہے ناجانے وہ کونسی گھڑی تھی جب میرا ان سے رابطہ قائم ہو گیا ان کے ساتھ جیسے کوئی رشتہ قائم ہو گیا یہ فاروق عادل ہی ہیں رہتے تو روشنیوں کے شہر کراچی میں ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کیہ شاہینوں کے شہر سرگودھا اور زندہ دلان کا لاہور جیسے ان کی دل کی دھڑ کنوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ایک دن فاروق بھائی کا میسج موصول ہوا میں لاہور آیا ہوا ہوں اب بھلا میں کہاں موقع ضائع کرنے والا تھا بھاگم بھاگ پنجاب یونیورسٹی ایگزیگٹو کلب پہنچ گیا معلوم ہوا فاروق بھائی اکیلے نہیں ان کے ساتھ محترم ڈاکٹر طاہر مسعود بھی لاہور آئے ہوئے ہیں بڑی خوبصورت ملاقات تھی ایسی ملاقارت برسوں یاد رہتی ہے۔
فاروق بھائی کو جامعہ پنجاب کے کسی پروگرام میں شرکت کرنا تھی پھر انھوں نے واپس بھی جانا تھا دوبارہ ملاقات کا وعدہ ہوا دوسری مرتبہ الحمرا ادبی کانفرنس میں فاروق بھائی مدعو تھے یہاں بھی ملاقات رہی یہ غالبا کانفرنس کا آخری دن تھا میں اور فاروق بھائی انارکلی سے ساگ اور مکئی کی روٹی کھا رہے تھے اس مرتبہ بڑے بھائیوں کی طرح کچھ نصیحتیں بھی کر گئے تھے اور کچھ مخلصانہ مشورے بھی جن پر مجھے عمل کرنا تھا ۔کئی دن گزر گئے میں نے ایک کالم لکھا تھا رات کو فاروق بھائی کا فون آگیا میں پریشان ہو گیا تھا ضرور اس مرتبہ گرفت ہو گی فاروق بھائی کی تیز آنکھ نے میری کوئی غلطی پکڑ لی ہو گی آواز آئی ”یار تم اچھا لکھ لیتے ہو ، مزے دار تحریر ہے”آنکھوں میں نمی آگئی ، سیروں خون بڑھ گیا تھا میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
America Natural Beauty
خوشی اس بات کی تھی کہ شاید واقعی اب میں ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھنے کے قابل ہو گیا ہوں ”لیکن مزید بہتر کرو اور اگر میں یہ کہوں کہ تحریر مکمل تھی تو تم خراب ہو جائو گے” اس مرتبہ پھر کچھ کتابوں کو پڑھنے کا حکم ملا تھا۔ فاروق بھائی کالم نگار ہیں فاروق بھائی کے کالم کا تو میں پرستار تو تھا ہی اتنے اچھے سفرنامہ نگار ہیں یہ ان کا سفرنامہ ”ایک آنکھ میں امریکیہ”پڑھ کر پتا چلا اس سفر نامے کو میں کتنی مرتبہ پڑھ چکا ہوں یہ تو مجھے خود بھی اندازہ نہیں لیکن ہر مرتبہ پڑھنے سے مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اس سفر نامے میں معلومات کا ذخیرہ بھی موجود ہے،خوبصورت الفاظ میں بیان کی گئی قدرتی مناظر کی خوبصورتی بھی ملتی ہے اور شگفتگی کا ساتھ بھی رہتا ہے سفر نامے کا ایک ایک لفظ قاری کے لئے بھرپور غذائیت رکھتا ہے کچھ زیادہ سفر نامے پڑھنے کا میں دعوی دار نہیں لیکن جتنے پڑھے ہیں ان سب سے مختلف پایا اس سفرنامے کو،اس سفرنامے کے ہر جملے کو دوسرے سے بڑھ کر لذیذ پایا یہ سفرنامہ پڑھنے والے کو بغیر ٹکٹ گھر بیٹھے پورے سفر کا لطف دیتا ہے۔
دریائے پوٹامک سے شروع ہونے والا یہ سفرنامہ پڑھنے والے کو کیبرے پر لے جا کر ہی آزاد کرتا ہے ویسے تو یہ پورے کا پورا سفر نامہ ایک شاہکار ہے لیکن کبھی آپ کو یہ سفرنامہ پڑھنے کا موقع ملے تو نکی،دھوکا،اطالووی حسینہ اور بھارت زادی اور حرافہ کے ابواب پڑھنا مت بھولئے گا، ایک سفرنامہ جس کی کچھ حصے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے برادرم مبین رشید نے بھی لکھا ہے”شیکسیئپر کے دیس سے” امید ہے کہ یہ خوبصورت سفر نامہ جلد کتاب کی شکل میں پڑھنے کو ملے گا۔