چند روز قبل7 اپریل 2012کو گیاری سیکڑمیں بٹالین ہیڈ کوارٹر پر گرنے والا برفانی تودا جس کی چوڑائی تقریباً ایک کلومیٹر اور موٹائی تقریباً80فٹ تھی اس سانحے نے پوری پاکستانی قوم کو غم سے نڈھال کردیا ہے جس قت یہ برفانی تودا کیمپ پر گرا اس قت 135لوگ وہاں پر موجود تھے جن میں 124پاک آرمی کے جوان اور11 سویلن تھے اس قت پوری پاکستانی قوم گیس کی قلت اور بجلی کی طویل ترین ڈشیڈنگ جیسے مسائل کو بھلا کر اپنی تمام تر توجہ سیاچن پر مرکوز کیئے ہوئے اپنے رب سے دعا گو ہیں کہ اللہتعالیٰ کوئی معجزہ دکھادے اور برفانی تودے میں پھنسے ہوئے 135 لوگ معجزاتی طور پر محفوظ رہیں جو در حقیت ایسا ہونا اب ممکن نظر نہیں آرہا ہے لیکن پھر بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور آخری وقت تک آس رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ذات پاک بڑی بے نیاز ہے وہ چاہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جس جگہ یہ سانحہ ہوا ہے یہ لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا گلیشیئر ہے جبکہ مقامی لوگ اسے سیاچن کہتے ہیں جس کا مطلب ہے گُلابوں کی سرزمین لیکن آج تک اس جگہ پر پھول اُگنا تو رہی دور کی بات گھاس کا ایک پتہ تک بھی نظر نہیں آیا کیونکہ گرمیوں میںسیاچن کا درجہ حرارت منفی 16سے 32ہوتا ہے اور سردیوں میںیہی درجہ حرارت منفی 50سے بھی اُپر تک چلا جاتا ہے سیاچن کی چوٹیوں پر آکسیجن ماسک کے بغیر زندہ رہنا نا ممکن ہے۔
یہاں پر جانے کے لیئے ایک خاص قسم کا لباس ،جوتے اور ہیلمٹ درکار ہے اور ان حفاظتی اقدامات کے باوجود سیاچن کی چوٹیوں پر کوئی بھی انسان 20دن سے زیادہ زندہ نہیںرہ سکتا ایسی جگہ جس کے بارے میںپڑھتے ہوئے ،سُنتے ہوئے اور لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہورہی ہو تو ہمیںداد دینا ہوگی ہماے اُن فوجی جوانوں کے حوصلے ،ہمت ،جواں مردی اور جذبے کی جو اپنے پیاے وطن کی پاک سرحدوں کی حفاظت کے لیئے اس موت کی گھاٹی میںاپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی یہاں سے زندہ واپس لوٹنا نصیب کی بات ہے ا ور وہ جو مرنے سے بچ بھی جا ئے تو ان میںسے اکژسنو بائیٹ کا شکارہوجاتے ہیںجس سے آدمی ،آنکھ ،کان، ناک،ہاتھ یا پھر ٹانگ سے محروم ہوسکتا ہے۔
ایسی جگہ جہاں جانا موت کو دعوت دیناہواور وہاں پر زند گی گُزارنا ناممکن ہوتو ایسی جگہ پر کسی کو بھی قبضہ کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن کچھ لوگ عادت سے مجبور ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت جس کی فوج نے اپریل 1984میں اچانک سیاچن پر قبضہ کر کے دینا کی بلند ترین اور انتہائی خطرناک مقام پر اپنی چوکی قائم کرلی اور جب پاکستانی فوج کو پتہ چلا تو وہ بھی سیاچن پہنچ گئے اور نہوں نے بھی اسی مقام پر اپنی چوکی بنالی اس قت سیاچن کا دوتہائی حصہ بھارت اور ایک تہائی حصہ پاکستان کے قبضے میںہے اور یہ دنیا کا انتہائی خطرناک اور مہنگا ترین میدان جنگ ہے جہاں پاکستان کا سالانہ خرچ پانچ ارب جبکہ بھارت کا سالانہ خرچ بیس ارب روپے ہوتاہے اس کے علاوہ یہاں پر ہر تیسرے روز ایک پاکستانی فوجی شہید ہوتاہے تو وہیںہر دوسردن ایک بھارتی فوجی مرتا ہے تو اس طرح ایک سال میں یہ تعدادا ہزاروں میں ہوجاتی ہے۔
اٹھایئس سالوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے لیکن 7اپریل 2012سیاچن کے گیاری سیکٹر میں ہونیوالے سانحے نے پوری انسانیت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بل آخر ان 28سالوں میں بے پناہ پیسہ اور بے شمار قیمی جانیں ضائع ہونے کے باوجود دونوں ممالک کو آخر ملا بھی تو سوائے لاشوںکے کیا ملا شاید یہ وہ سوال ہے جس کا جو اب کسی کے پاس نہیںہوگا اس لیئے بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک کو چا ہیے کہ مل بیٹھ کر کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ ایسی خطرناک جگہ پر قبضہ جمانے کی ضدمیںایک دوسرے کے ساتھ تعقات خراب کرنے کی نوبت ہی نہ آئے اور یہاں پر ہونے والے اربوںروپے کے اخر اجات دونوں ممالک اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لیئے خرچ کریں۔
کوئی بھی پاکستان دشمن اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ اسطرح کے واقعات سے ہمارے فوجی جوان ڈر جائیںگئے یا انکے حوصلے پست ہوجائیںگئے تو ایسا سوچنابھی بے فضول ہے کیونکہ ہمیں بھروسہ اور فخر ہے اپنے فوجی جوانوں پر اور یقین ہے انکی ایمانداری پر جو اپنے فرائض کو جہاد سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں۔
ہمارے نڈر،دلیر اور باہمت فوجی جوان کٹ تو سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے مر تو سکتے ہیںلیکن بک نہیں سکتے،اے پُتر ہٹاں تے نیں وکدے۔توں لبھدی پھریںب ازار کُڑے،مصیبت کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم ان تمام خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے جن کے لخت جگراس وقت موت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہم سلام پیش کرتے ہیں ان بہادرماوں کو جنہوں نے ایسے بہادر بیٹوں کو پید ا کیا اور جب تک پاکستان میں ایسی ہی بہادر ما وں کے بہادربیٹے موجود ہیں کسی میںا تنی ہمت نہیں کہ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ تحریر:کفایت حسین کھوکھر