بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔۔
خاندانی پس منظر بابا فرید الدین گنج شکر 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آبا کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ سیرالعارفین (تصنیف 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی) کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔
ابتدائی تعلیم بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔ اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔
چشتیہ سربراہ مرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔
دلی سے پاکپتن ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشیں ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔ شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں:
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈا دیہی روگ نہ لگیے، پلے سب کجھ پا
( فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو)۔
پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔
شادی حامد بن فضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔
سازشیں پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں بھی مذہب کا ٹھیکیدار قاضی موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو آزار پہنچاتے تھے لیکن بابا فرید کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔
قاضی کو اس پر بھی چین نہ آیا اور اس نے ملتان کے علما کو اطلاع دی اور سوال کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص جو اہلِ علم ہے خود کو درویش کہلوائے، ہمیشہ مسجد میں رہے اور وہاں گانا سنے اور رقص کرے۔جب ان علما نے بھی کچھ نہ کیا تو قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ بابا فرید کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
عام لوگوں سے محبت اس مشکلات کے باوجود بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ ( میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔)
بابا فرید کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں فریدا خالق خلق میں، خلق وسے رب مانہہ مندا کس نوں آکھیے، جاں تس بن کوئی نانہہ (فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے) فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوئے جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں اپر ہوئے ( فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے۔)
وفات بابا فرید 93 سال کی عمر پا کر 1266 میں رخصت ہوئے۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر(دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہیگا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے۔)