برسلز(پ۔ر)مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے اور کشمیریوں کا ان کا حق دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے گذشتہ روز روز بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر جسے کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، یورپی پریس کلب برسلزمیں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جنوبی ایشیاء میں انصاف و امن اورمقبوضہ کشمیرمیں جبری گم شدگیوں” کے عنوان سے اس سیمینار کا اہتمام انٹرنیشنل کونسل فارہیومن ڈیوپلمنٹ (آئی سی ایچ ڈی) نے کیا تھا۔ سیمینارسے برسلز پارلیمنٹ کی خاتون رکن ڈینیل کارون ، کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید ، امن کے لیے کام کرنے والے صحافی شیراز راج اور دیگر نے خطاب کیا۔برسلز پارلیمنٹ کی خاتون رکن ڈینیل کارون نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر بہت خوبصورت خطہ ہے۔ کشمیریوں کو ان کے حقوق ملنے چاہیں۔ ان پر ناانصافیاں ختم ہونی چاہیں تا کہ کشمیری خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔ کشمیرمیں امن ہوگا تو وہاں خوشحالی آئے گی اور دنیا ان کی ثقافت سے آگاہ ہوگی۔
سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید نے کہا ہے کہ کشمیری قوم اپنے حق خودارادیت سے کبھی بھی دستبردارنہیں ہوگی۔ بھارت کشمیریوں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ علی رضا سید نے کہا کہ بھارت، سارا جنوبی ایشیاء اور پوری عالمی برادری یہ جانتی ہے کہ انسانی حقوق کشمیریوں کا ایک خواب ہے اور کشمیری قوم اپنے حق خودارادیت پر کبھی بھی سودابازی نہیں کرے گی۔ ہم نے کشمیریوں کے حقوق کی حمایت میں اپنی مہم چلارکھی ہے اور ہرقیمت پر یہ مہم جاری رہے گی۔ انھوں نے کہاکہ یہ کہنا لازمی ہے کہ انصاف اور امن ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک کو چھوڑ کر دوسرا حاصل کیا جا سکے۔
بھار ت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر اس سیمینار کے انعقاد کا بھی یہ مقصد ہے۔ ہم بھارت کی ریاست اور وہاں کی حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر لوگ بندوق کی نوک کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں تو اس طرح کسی بھی جمہوریت کو فروغ نہیں ملتا۔ اگر جمہوریت کا تعلق افراد کے حقوق اور آزادی سے ہے تو پھر ہم بھارت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک قوم اپنے حق آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔ وہ اپنے مستقبل کا آزاد ماحول میں فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن وہ کشمیریوں کے حقوق دبا رہا ہے اور مقبوضہ وادی میں بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہا ہے۔
اگر جمہوریت کا تعلق انصاف سے ہے تو پھر مجھے کہنے کا حق حاصل ہے کہ میرے کشمیری بھائی کو گذشتہ سات عشروں سے انصاف نہیںمل رہا۔ انھیں بھارت کی عدالتوں سے کوئی امید نہیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر ریاستی ادارے انھیں کچلنے پر لگے ہوئے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی فورسزان کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ یہ ادارے انھیں قتل کررہے ہیں، بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں تشدد، خوف و ہراس اور خواتین کی عصمت دری معمول بن چکا ہے۔معاشرے میں ڈروخوف پایا جاتا ہے۔ فوجی بزرگ شہریوں اوردیگر باعزت اور شریف افراد جیسے پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی عتک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگرجمہوریت اظہار رائے کی آزادی کا نام ہے تو پھر کشمیریوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ ان کی یہ حسرت دل ہی میں رہ گئی ہے۔اپنے خطاب میں کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے مقبوضہ کشمیرمیں انٹرنیشنل پیپلزٹریبونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس اور ایسوسی ایشن آف پرینٹس آف ڈس اپیئرپرسنز کی ایک حالیہ رپورٹ کا ذکر بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ رپورٹ مقبوضہ کشمیرکی عمومی صورتحال کے بارے میں ایک تازہ ترین ثبوت ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ کچھ سرکاری دستاویزات اور اعلیٰ حکام کے انٹرویوز پر مبنی ہے لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور فوج کے 500 اہلکار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
ان اہلکاروں کو سزا دینے کے بجائے انھیں سرکاری انعامات اور ترقیوں سے نواز گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ اہلکار انسانیت کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔انھوں نے تین ہزار سے زائد لوگوں کو مارکر بے نام اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔ بھارتی حکومت اس مسئلے پر جواب دینے کے لیے تیار نہیں اور ان قبروں میں دفن افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے سے گریزاں ہے۔ اگر بھارت ان قبروں میں دفن افراد کو غیر ملکی دہشت گرد کہتی ہے تو اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے مطالبے کو مان لینا چاہیے ۔یہ بھارت کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرسکے۔ علی رضا سید نے زوردے کر کہا کہ بھارت کے ہتھکنڈے ناکام ہو چکے ہیں اور اب وہ زیادہ دیرتک کشمیریوں کے حق خودارادیت کو نہیں دبا سکتا۔
بھارت اخلاقی طورپر گرچکا ہے اور اس کے حربوں اور ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی بہت کمزور ہو چکی ہے۔ چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس اور ایسوسی ایشن آف پرینٹس آف ڈس اپیئرپرسنزکی کوششوں کو سراہا جو کشمیریوں کے حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کر رہی ہیں اور انھوں نے اپنی کوششوں سے بھارت کی نام و نہاد جمہوریت کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔انھوں نے ثابت کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں ایک استبدادی نظام چلائے ہوئے ہے۔ علی رضا سید نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیرخاص طورپر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ سیمینار بھی اس جدوجہد کاحصہ ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور ہماری کوششوں کی ایک مثال ہے۔علی رضاسید نے کہا کہ ہم اس وقت تک بھارت کے ہر قومی دن پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کو یوم سیاہ مناتے رہیں گے جب تک کشمیریوں کوحق نہیں مل جاتا۔انھوں نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ایٹمی جنگ کی وارننگ کی بھی مذمت کی اور کہا کہ بھارت کشمیریوں کو کیمیکل اور ایٹمی وار کی وارننگ دے رہا ہے۔ اس سے انھیں خوفزدہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ہرگز ان کو آزادی کی منزل سے دور نہیں کرسکتے۔
امن کے کوشاں صحافی اور شاعر شیراز راج نے کہا کہ بھارت اور دیگر خطوں کی سول سوسائٹی کو کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم سے روکنا ہوگا۔جب کشمیر میں انصاف نہیں ہوگا تو اس وقت تک جنوبی ایشاء میں امن ممکن نہیں۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کو آگے آنا ہوگا کشمیریوں پر ظلم وستم ختم کرنا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ بھارت کے پانچ سو اہلکاروں کے کشمیریوں پر مظالم میں ملوث ہونے کی رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ بھارتی حکومت کا کردار کشمیر میں ظالمانہ ہے۔ ہندوستان ایک اچھی تہذیت کا ملک ہے لیکن حکومت کا کردار ٹھیک نہیں۔ میں امن کا ایک غیر جانبدار کارکن ہوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں۔
انھوں نے خطے دوسرے ممالک مثلاً سری لنکا میں انسانی حقوق کا ذکر کیا۔اس موقع پر حاجی خلیل نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے اور اس سیمینار کے مقاصد بیان کئے۔انھوں نے مقبوضہ کشمیر بے نام قبروں کے بارے سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا۔اس دوران سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا اور کشمیرپر اس سیمینار کے انعقاد کو سراہا گیا۔
Av. Des Vaillants 36, 1200 Brussels, Belgium e-mail: info@kashmircouncil.eu