حکومت کا کہناہے کہ مئی کے آخر میں تشدد کے آغاز کے بعد سے اب تک، کم ازکم 78 افراد ہلاک ہوچکے ہیں
Violence against Muslims in Burma
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہناہے کہ برما کی مغربی ریاست راکین میں چھ ہفتے قبل حکومت کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود مسلمان نسلی اقلیت کے خلاف تشدد بدستور جاری ہے۔
حکومت کا کہناہے کہ مئی کے آخر میں تشدد کے آغاز کے بعد سے اب تک کم ازکم 78 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تشدد کے یہ واقعات ریاست کے بودھ پیروکاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹنے پڑنے کے نتیجے میں رونما ہورہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہناہے کہ10 جون کو ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد سے کچھ علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کمی آئی ہے لیکن تنظیم کے ایک رکن بنجمن زاواکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روہنگیا مسلم اقلیت پر حملوں میں بدستور اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہناہے کہ10 جون کو ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد سے کچھ علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کمی آئی ہے لیکن تنظیم کے ایک رکن بنجمن زاواکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روہنگیا مسلم اقلیت پر حملوں میں بدستور اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔
زاواکی کا کہناہے کہ روہنگیا اور دوسرے مسلمان حملوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں ، ان کی املاک تباہ کی جارہی ہیں، انہیں ہلاک کیا جارہاہے اور ان کی خواتین پر جنسی حملے کیے جارہے ہیں۔ اور تشدد کے ان واقعات میں صرف راکین بودھ ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کے اہل کار بھی حصے دار ہیں۔
انہوں نے بتایا روہنگیا علاقوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد سے سینکڑوں مسلمان لاپتا ہیں اور ان کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ نہیں ہوپارہا۔ان میں اکثریت بالغ مردوں اور لڑکوں کی ہے اور بظاہر انہیں مذہب کی بنا پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔
زاواکی کا کہناہے کہ ان واقعات سے برما میں گذشتہ سال سے جاری انسانی حقوق کی سمت پیش رفت کو دھچکا لگا ہے، لیکن ان کا کہناہے کہ صدر تھین سین کی سیاسی اصلاحات سے برما کے نسلی اقلیتی علاقوں کی صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے۔
تاہم رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس ماہ کے شروع میں صدر تھین سین کے اس بیان کے بعد کہ روہنگیا مسئلے کا حل صرف اس اقلیتی گروپ کی ملک بدری یا پناہ گزین کیمپوں میں منتقلی ہے، صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہواہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدر کے اس بیان پر اپنا فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے شدید نکتہ چینی کی تھی۔
ریاست راکین میں بدامنی کے آغاز کے بعد سے اب تک 90 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں جس سے ایک اور انسانی بحران پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہناہے کہ بے گھر ہونے والے افراد کی حالت کے بارے میں جاننا بہت دشوار ہے کیونکہ برما کی حکومت بین الاقوامی امدادی کارکنوں اور معائنہ کاروں کومتاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔
سرکاری میڈیا نے جمعے کو کہا کہ اس ہفتے کئی سرکاری عہدے داروں نے بے گھرہونے والیافراد کی بحالی کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے راکین کا دورہ کیا۔
اخبار نیولائٹ آف میانمر کا کہناہے کہ متاثرہ علاقوں میں جن املاک کو نقصان پہنچاتھا، ان کی تعمیرو مرمت کا کام جاری ہے۔
مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات نے انسانی حقوق کی تنظمیوں کو ایک بار پھر اس جانب متوجہ کیا ہے کہ برما کی حکومت یہ دبا ڈالیں کہ وہ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کے قانون کو یا تو منسوخ کرے یا اس میں تبدیلیاں کرے۔
برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا نسل کے مسلمان تکنیکی لحاظ سے غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور ان کا اصل وطن بنگلہ دیش ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان انسانی حقوق پر مذاکرات اگلے ہفتے
اس سے قبل یہ مذاکرات گذشتہ سال اپریل میں ہوئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان انسانی حقوق پر مذاکرات کا یہ 17 واں دور ہوگا۔
امریکہ اور چین نے کہاہے کہ وہ اگلے ہفتے انسانی حقوق کے موضوع پر مذاکرات کے ایک اور دور میں حصہ لیں گے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ اور چین کے سرکاری میڈیا نے جمعے کو کہاکہ انسانی حقوق سے متعلق مذاکرات 23 اور 24 جولائی کو واشنگٹن میں ہوں گے۔
امریکہ کی نمائندگی نائب سیکرٹری برائے جمہوریت ، انسانی حقوق اور محنت مائیکل پونسر اور چینی وفد کی قیادت چین کی وزارت خارجہ کے عہدے دار چن ژو کریں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان انسانی حقوق پر مذاکرات کا یہ 17 واں دور ہوگا۔
اس سے قبل یہ مذاکرات گذشتہ سال اپریل میں ہوئے تھے۔