پاکستان کا سب سے بڑا اردو اخبار روزنامہ ”جنگ”کا قاری ہونے کے ناطے اسکے رائیٹر جناب ڈاکٹر صفدر محمود،جناب عرفان صدیقی جناب نذیر ناجی اور جناب سلیم صافی جنکے تحریر کردہ کالم نہایت توجہ سے پڑھتا ہوں،انکی تحریریں اکثر اوقات ایسی جامع ہوتی ہیں اور موجودہ پاکستان جو کہ میرا وطن بھی ہے میں مایوسی کے دن گزارتے گزارتے حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ابھی اللہ کے بندے اس دھرتی پر موجود ہیں جو بلا خوف و تردید تحریر کے ذریعے کہنے کا اور سچ لکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،نذیر ناجی صاحب کی تحریریں ملی جلی ہوتی ہیں اور اکثر بلا دلیل حکومت وقت کو اپنے وقت کی بہترین حکومت قرار دیتے ہیں لیکن آج کل وہ بھی بڑے کھلے دل سے اپنے کالموں میں تحریر فرما رہے ہیں شاید اب انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ حکومت کے اب دن گنے جا چکے ہیں؟۔
Columnist Irfan Siddiqui
میں کوئی زیادہ پڑھا نہیں البتہ ان کالم نگاروں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں،اور عملی طور پر یہ میرے استاد بھی ہیں،خاص طور پر ڈاکٹر صفدر محمود اور عرفان صدیقی،اتوار تین جون کا اخبار میرے سامنے ہے ان دونوں احباب کے علاوہ جناب نذیر ناجی اور یاسر پیر زادہ کے کالم بھی نہایت توجہ اور باریک بینی سے پڑھے ہیں ۔جناب نذیر ناجی نے یکم جون کو وفاقی بجٹ کے پیش ہونیکے موقع پر ممبران اسمبلی کی دھینگا مشتی پر زبردست ٹریلر چلا دیا ہے اسی طرح پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم کے ذریعے ان چند ممالک سے موازنہ کیا ہے جنکے عوام پاکستان سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور انکی اس تحریر سے واضع ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں بہترین انداز میں عوامی خدمت کر رہی ہیں اور سارا غصہ فوجی حکومتوں پر نکال دیا ہے ،عوام کی منتخب حکومت خواہ وہ برائے نام ہی عوامی شرکت سے قائم ہوئی ہوں پاکستان کے موجودہ حالات بری الذمہ قرار دیا ہے ،جناب عرفان صدیقی نے وفاقی بجٹ پر خاص توجہ کی بجائے اسے محض اعداد و شمار کی بازیگری قرار دیا ہے لیکن انوہں نے دو ایسی مثالیں پیش کی ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں اور حکمران طبقہ کی حیثیت کیا ہونی چاہیے ،ایک مثال ایک تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی دی ہے جو اس ادارے کی حفاظت اس طرح کرتے کہ شاید اس طرح اپنے گھر کی بھی نہ کرتے اور اپنے سٹاف کو بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور کرتے اور یہی فرماتے کہ یہ ادارہ انکا اور انکے باپ دادا ہی کا ہے۔
دوسری مثال انہوں نے خلیفة المسلمین حضر ت عمر فاروق کے ایک واقع کی پیش کی ہے کہ انہیں بیماری کے باعث طبیب کی ہدایت پر شہد کے چند چمچ درکار تھے جب کہ گھر میں شہد نہ تھا تو انہوں نے مجلس شوریٰ سے مسجد نبوی میں جا کر اپنی حاجت بیان کر کے بیت المال (سرکاری خزانہ)سے چند چمچ شہد حاصل کرنے کی منظور لی یہ دونوں مثالیں سرکاری امانتوں کی حفاظت اور استعمال کے طریقہ کار کی عمدہ ترین مثالیں ہیں ،یہاں صوابدید جیسا بد بو دار اور کوہڑ زدہ عمل کا استعمال نہیں ہے جس کے ذریعے ہمارے حکمران گزشتہ 60سالوں سے سرکاری امانتوں کو لوٹنے اور غیر مستحق لوگوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں۔اب ذرا بات کرتے ہیں یاسر پیر زادہ کے کالم کی ”دنیا کا سب سے بڑا ملک۔۔۔۔۔؟بات کرتے ہیں،1947ء میں جب پاکستان کی بنیاد رکھی گئی انتہائی خستہ حالی میں تھا لیکن عوام جنہوں نے ایک اسلامی ملک کے قیام کی خاطر بڑی قربانیاں پیش کیں اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی کہ جوش و جذبہ کا یہ عالم تھا کہ نہایت قلیل عرصہ میں مسلانان عالم با عالم اسلام کا قلعہ کہلایا ،آخر کیوں۔۔۔۔؟پاکستان میں قائم ہونیوالی فوجی حکومتوں(جنرل ایوب،جنرل یحیٰ،جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز مشرف)کا عرصہ حکمرانی تقریبا ً32سال ہے اور 32سال میں تقریباً سیاستدانوں کا ہے ،ملک کو لوٹا ہر حکمران نے خوب ہے،خواہ وہ فوجی آمر تھا یا نام نہاد جمہوری ۔
Pervez Musharraf
اسکے باوجود جو حالات آخری دو ادوار جنرل پرویز مشرف اور موجودہ جمہوری حکومت کے ہیں انہوں نے پاکستان کے عوا کو دن ہی میں تارے دکھا دیئے۔پرویز مشرف نے قوم کی غیرت کو نیلا م کیا اور عوام کو نظر انداز کیے رکھا اور موجودہ جمہوری حکومت نے غیرت کی نیلامی کے ساتھ ساتھ عوام اور سرکارکو اس طرح لوٹا کہ عوام کا بھرگس نکال دیا۔اور جناب پیر زادہ صاھب اپنے کالم کے ذریعہ بھارتی ، بنگلہ دیش، نائجیرین، برما، ایتھوپیا، یوگنڈہ، نیپال کے عام کی مثالیں پیش کر کہ کہنا چاہ رہے کہ ابھی عوام ان جیسے نہیں ہوئے۔مثال پیش کرتے تو ملائشیا کے حکمران ڈاکٹر مہاتیر محمد کی یا پھر ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کی جنہوں نے کس طرح غریب گھروں میں آنکھ کھولی اور اپنے اپنے ملکوں کے حکمران بنے اور مہاتیر محمد اور اسکے ساتھیوں نے ملائشیا کو ایشین ٹائیگر بنا دیا اور ترکی کے وزیر اعظم اور انکی پارٹی نے کس طرح عام کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے،اسی طرح انڈو نیشیا بھی بہتر سے بہتری کی طرف گامزن ہے،پاکستان ایسا ملک ہے جسکے پاس دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں وسائل کم نہیں ہیں ضرورت ہے دیانتداری سے انکے استعمال اور قومی و ملی لگن کی۔میرے ان دیکھے استاد محترم جناب ڈاکٹر صفدر محمود کے کالم”بجٹ کا دنگل”کی طرف اور تھوڑا سا آگے بڑھاتے ہوئے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونیوالے شخص جو کہ صدر پاکستان بھی ہیں بھارت میں جاتے ہیں خانقاہ پر حاضری کے لئے جو کہ ان کا لگن ہے اور وہاں چڑھاوا نو کروڑ کا ۔سرکاری خزانہ سے،اس طرح سری لنکا میں بہادر شاہ ظفر کے مقبرہ کے لئے بھی سکراری خزانے کا استعمال ،اسی طرح میاں نواز شریف جب وزیر اعظم پاکستان تھے تو انہوں نے اپنے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو جیت کی خوشی میں انگلینڈ کے خلاف 50ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان کر دیا۔
اس وقت کے انگلینڈ کے وزیر اعظم جان میجر نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس کے فرنیچر وغیرہ کی مرمتی کے لئے پانچ ہزار کی منظوری بڑی مشکل سے ملی ہے اور پاکستانی وزیر اعظم کھڑے کھڑے پچاس ہزار پاؤنڈ کا اعلان کر رہے ہیں،یہہ سب کارستانیاں ہیں صوابدیدی اختیارات کی۔جناب ڈاکٹر صاحب نے محض دو شاہ خرچیوں کی بات کی ہے جبکہ گڑھی خدا بخش کے مقبرہ جات اور عمارات بھی یقینا سرکاری خزانہ سے ہی تعمیر ہوتی ہونگی۔حکمرانوں کا اپنا تیار کردہ آئین جسکے تحت مرکز میں زیادہ سے زیادہ وزراء مشیران کی تعداد بتیس ہو سکتی ہے جبکہ فی الوقت مرکز میں وزراء کی تعداد تقریباً سو ہے جو کہ غریب ملک ہے اسی طرح صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے روزانہ کے اخراجات 10سے 12لاکھ تقریباً ہیں۔جہاں تک تعلق ہے خانقاہ اور مقبرہ ہر سرکاری ادائیگیوں کا اور عوامی رد عمل یا عدالت میں جانیکا تو ڈاکٹر صاحب پاکستانی عوام کا یہ کلچر نہیں کہ وہ دیکھیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ،اس ملک کی طوائفیں حج پر جاتی ہیں اور بڑی شان سے میگزین میں تصویر یں بلیک سے حاصل ویہ سے ہے حج اور عمرہ کی سعادت یہ سب جائز ہیں اللہ ظالموں سے نجات دلائے اور ہمارے عوام کو سمجھ۔