کوئٹہ (جیوڈیسک)چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ صوبے میں ایف سی کی تعیناتی کا مقصد لوگوں کو تحفظ فرہم کرنا ہے، ان کے مسائل میں اضافہ کرنا نہیں، پولیس کو دوبارہ اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی۔ وفاق کے وکیل ایس ایم ظفر نے عدالت کو بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پورا صوبہ ایف سی کے کنٹرول میں ہے۔ صوبے میں سولہ ہزار ایف سی اہلکار تعینات ہیں اور یہ ذمہ داری وفاق کی جانب سے دی گئی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دو ہزار چھ سے اب تک پولیس، ایف سی اور لیویز کے چار سو بتیس اہلکار جاں بحق اور چھ سو نو زخمی ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایف سی امن و امان کے لیے سرگرم ہے لیکن ایف سی پر لوگوں کو اٹھانے کا الزام بھی ہے۔ ایف سی کا مقصد لوگوں کو تحفظ دینا ہے ان کے مسائل میں اضافہ نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ایک ہزار چھتیس واقعات میں کتنے ملزموں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چمالنگ میں ایف سی کے اہلکار کو ذبح کیا گیا۔
ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ ایف آئی آر درج ہونی چاہیے جو واقعات ہوئے ان کا ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے استفسار کیا ایف سی کے اہلکاروں کو قتل کئے جانے پر کتنی ایف آئی آر درج ہوئی۔ آئی جی ایف سی نے بتایا کہ بلوچستان میں اب تک ایف سی اہلکاروں کے 64 مقدمات درج ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایف سی اہلکاروں کو مارنے والے لوگ کیوں گرفتار نہیں ہوتے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا اسمبلی میں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایف سی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ الیکٹرونک میڈیا کا اپنا رول ہے، ٹی وی نہیں دیکھتا اخبار پڑھتا ہوں۔ وزرا سے جا کر پوچھیں کہ بیرونی مداخلت کے ثبوت ہمیں دیں اخبارات میں بیانات نہ دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ عدالت میں کیوں نہیں لاتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ اپنے ماتحت اداروں کو بھی ثبوت فراہم نہیں کرتے۔