سپریم کورٹ (جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کر دی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ فوج بھی ہماری ہے اس کے باوجود بلوچستان کے حالات روز بروز خراب ہو رہے ہیں۔
بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سول و فوجی قیادت کی جانب سے سردار اختر مینگل کے سوالات کا مشترکہ جواب چیف سیکریٹری کی جانب سے عدالت میں جمع کروایا گیا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا جانے والا وفاقی حکومت کا الگ جواب مسترد کر دیا۔
مشترکہ جواب میں کہا گیا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا اور نہ ہی آئی ایس آئی کے تحت کوئی ڈیتھ سکواڈ کام کر رہا ہے۔ لاپتہ افراد کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا حکم دے دیا گیا ہے جس اجلاس میں یہ جواب تیار کیا گیا اس میں وزیر دفاع، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی موجود تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج بھی ہماری ہے اس کے باوجود بلوچستان کے حالات روز بروز خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی بند گلی میں پہنچ جائیں۔ اپنے دائرہ کار اور اختیارات کا بھرپور استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کی اپنے گھر واپسی بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ آپ کا اپنا صوبہ ہے حالات اتنے بھی خراب نہیں کہ آپ وہاں جا نہ سکیں۔ اس چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آوران، نوشکی اور ڈیرہ بگٹی جانا چاہتے ہیں کسی وقت ان علاقوں کا اچانک دورہ کریں گے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جمع کروائی جائے۔ عدالت نے صادق عمرانی کی تجاویز بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔ کیس کی مزید سماعت آٹھ اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔