وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے بلوچستان کی صورت حال کے بارے میں گزشتہ روز اپنی نیوز کانفرنس میں بہت اہم امور پر روشنی ڈالی ، بلوچ لیڈر براہم داغ بگٹی کو پاکستان واپس آنے کی پیش کی اور یقین دہانی کرائی ہے کہ اب صوبے میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوگا? انہوں نے بتایا کہ کابینہ کی کمیٹی منگل سے بلوچستان کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ? وزیر داخلہ نے اس موقع پر واضح لفظوں میں کہا کہ براہم داغ بگٹی پاکستان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ جب چاہیں اپنی شرائط پر پاکستان واپس آسکتے ہیں ، ان کی واپسی کا حکومت کی جانب سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بات چیت کے لیے براہمداغ کے اپنے منتخب کردہ افراد پر مشتمل وفد ان کے پاس بھیجنے کو تیار ہے?وزیر داخلہ نے براہمداغ بگٹی کو یہ پیش کش ان کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کی کہ ان کی پارٹی صرف ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کے اندر کوئی جنگجو گروپ نہیں ہے? اس کے ساتھ ساتھ جناب رحمن ملک نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اب براہمداغ کو اپنے نائب سے قطع تعلق کا اعلان بھی کردینا چاہیے جو قندھار میں بیٹھ کر بلوچستان میں پرتشدد کارروائیاں کرارہے ہیں? وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر ان کے نائب وطن واپس آنا چاہتے ہوں تو دوستی کی اس پیش کش کو ہم ان تک وسعت دینے کے بھی خواہش مند ہیں۔
وزیر داخلہ نے دعوی? کیا کہ بلوچستان میں تشدد پر قابوپانے کے لیے ہر سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں اور ملکی ایجنسیوں کو صوبے میں پائی جانے والی لاقانونیت اور انارکی کا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جانا چاہیے?وزیر داخلہ نے بتایا کہ حکومت کے پاس بلوچستان لبریشن آرمی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات ہیں?انہوں نے بزرگ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے سردار اختر مینگل سے بھی بات چیت کے عمل میں شرکت کرنے کی درخواست کی اور ان کے تمام تحفظات دور کرنے کا وعدہ کیا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ممکن ہے کہ بلوچ نوجوانوں کے بعض گروہ حالات کے جبر کی وجہ سے قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہوں لیکن ہم انہیں ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے اور وطن واپس آکر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں? وزیر داخلہ نے ان نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا?جناب رحمن ملک نے اس یقین کا اظہار کیا کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں،اور ناراض نوجوانو ں کو وطن واپس آنا اور پوری قوم کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ? وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس موقع پر بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی۔
Balochistan
تفصیلات پر مشتمل وائٹ پیپر بھی جاری کیا?اس وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں 14علیحدگی پسند تنظیمیں اور گروپ کام کررہے ہیں?گزشتہ ایک سال کے دوران بی ایل اے اور دوسری تنظیموں نے سیکوریٹی فورسز کے 387 اہلکاروں کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے?ان کارروائیوں میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد وائٹ پیپر کے مطابق 242ہے?وزیر داخلہ نے بتایا کہ ان تنظیموں کو مالی وسائل، اسلحہ کہاں سے مل رہا ہے اور انہیں تربیت کون دیتا ہے، یہ تمام تفصیلات جلد قوم کے سامنے پیش کردی جائیں گی۔
وائٹ پیپر میں ان تمام تنظیموں کے نام اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ان کی کارروائیوں کی تفصیلات دی گئی ہیں جن میں سیکوریٹی فورسز پر حملوں، سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچانے،بم دھماکے اور دیگر کارروائیاں شامل ہیں? جہاں تک بلوچستان میں بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے کا معاملہ ہے تو یہ بات جنرل مشرف دور سے حکومت کے اہم مناصب پر فائز افراد کی جانب سے کہی جارہی ہے ?کچھ ہی مدت پہلے بلوچستان کے حالات پر سپریم کورٹ کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ)جاوید اقبال بھی اس بارے میں اہم معلومات منظر عام پر لاچکے ہیں جن کے مطابق بلوچستان میں بیس کے قریب بیرونی ایجنسیاں سرگرم ہیں اور دہشت گردی، اغوا اور قتل کے اکثر واقعات میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ایک اہم ادارے کے صوبائی سربراہ بھی یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں فراری کیمپ ایک پڑوسی ملک میں قائم ہیں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے تربیت دینے کا کام ان کیمپوں میں ہورہا ہے? موجودہ حکومت کے پاس، جو اپنے ساڑھے چار سال مکمل کررہی ہے، یہ معلومات یقینا پہلے دن سے تھیں ، اس لیے حالات کی بہتری کے لیے جو کچھ اب کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں، یہ سب کرنے کی فکر بالکل ابتدائی دنوں سے کی جانی چاہیے تھی۔
اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ حالات میں اب تک نمایاں بہتری آچکی ہوتی? بلوچستان کے ناراض نوجوانوں کو منانے کا کام اور بلوچ قیادت کو اس کی اپنی شرائط پر وطن واپس آنے کی پیش کش اسی کھلے دل کے ساتھ اگر چار سال پہلے کر جاتی فوجی آپریشن ختم کردیا جاتا اور مخلصانہ اور بامقصد بات چیت کا عمل شروع کردیا جاتا تو حالات نارمل ہوچکے ہوتے اور بیرونی سازشی طاقتوں کے لیے بلوچستان میں کھل کھیلنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہ گئی ہوتی? نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کو اس سمت پیش رفت میں کن رکاوٹوں کا سامنا رہا، تاہم اب جبکہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں محض چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو کم از کم اب پوری جاں فشانی ،دردمندی اور توجہ کے ساتھ بلوچستان میں قیام امن، بلوچ عوام کی محرومیوں کے ازالے، ملکی سا لمیت کی حدود کے اندر انہیں تمام حقوق کی فراہمی، صوبے اور ملک کے وسائل سے استفادے کے مکمل مواقع اور دیگر تمام حوالوں سے ان کی تسلی اور اطمینان کے تمام اقدامات عمل میں لانے چاہئیں۔
Balochistan Pakistan
کابینہ کی جو کمیٹی اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے، اسے اپنا کام تیزرفتاری سے مکمل کرنا چاہیے اور اس کی سفارشات پر پوری نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جانا چاہیے? جنرل مشرف کے دور میں چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین سید پر مشتمل کمیٹی نے بھی بہت اچھی تجاویز دی تھیں جن کا بلوچ قیادت کی جانب سے بھی خیر مقدم کیا گیا تھا? ان تجاویز پر عمل کرلیا گیا ہوتا تو معاملات اس حد تک خراب ہونے کی نوبت ہی نہ آتی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے دہرائے جانے کے خدشات ظاہر کیے جانے لگتے۔
بلوچ عوام پاکستان سے محبت میں ملک کے کسی دوسرے علاقے کے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں لیکن ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں طاقت سے دبانے کی کوششوں نے حالات کو خراب کیا اور بیرونی قوتوں کو دراندازی کے مواقع فراہم کردیے? لیکن اب بھی معاملات کو محبت اوردل جوئی سے طے کرنے کا عزم کرلیا جائے تو بلوچستان اور اس کے ساتھ ساتھ پورا پاکستان امن، ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوسکتا ہے? اس لیے حالات کی نزاکت اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اب ایک ایک لمحے کی قدر کرنی چاہیے اور بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔