وزیر خارجہ کہتی ہیں کہ برسوں سے پائی جانے والی بد اعتمادی اب ختم ہو جائے گی۔کیا محض بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے سے 64 برسوں پر پھیلے ہوئے بھارت کے پاپ دھل جائیں گے۔کیا ہم یہ اعتماد کر لیں کہ بھارت تمام تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے دائرے میںطے کر نے پر آمادہ ہو جائے گا۔ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ اعتماد کی حقیقت کی روداد کچھ اسطرح سے ہے۔کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں کشمیر کے تنازعہ کا مقدمہ خود ہی پیش کرتے ہیںاور جب وہاں کشمیر میں استصواب رائے کرانے کی قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔تو پنڈت جی پوری دنیا کے حکومتی نمایندوں کے سامنے ان قراردوں کے متن سے اتفاق کرتے ہیں۔اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس تنازعے کے فیصلے میں کشمیریوں ہی کی رائے کو مقدم سمجھا جائے گا۔پنڈت جی ایک معروف سیاسی رہنما تھے ۔اقوام متحدہ میں موجود تمام نمایندئوں نے پنڈت جی کے قول پر اعتماد کیا ۔لیکن آپ ہندوستان واپس پہنچتے ہی اقوام عالم کے روبرو کئے گئے وعدے سے مکرگئے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کا الاپ کر نے لگے۔ اسطرح پنڈت جی نے اعتماد کی دھجیاں بکھیر دیں۔تین بار پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت ، سازشوں کے ذریعہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا معاندانہ اقدام،سیاچن کے بعض حصوں پر غاصبانہ قبضہ ،سرکریک کے مسئلہ پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ،شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی ریشہ دوانیاں جن کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں۔سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت پاکستان کے حصے کے دریائوں ،سندھ،جہلم اور چناب کے پانی کی رفتار میں کمی بیشی نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن بھارت نے ان دریائوں پر متعدد ڈیمز بنا کر پاکستان کو آبی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ جس کے باعث پاکستان کی زراعت متاثر ہو رہی ہے۔بارشوں کے موسم میں جب پاکستان میں ڈیمز کی نایابی کے سبب بارشیں سیلاب کا روپ دھار کر دیہاتوں اور شہروں میں تباہی مچاتی ہیں ۔ تو اسی لمحے بھارت دانستہ ڈیمز کی در کھول کر پاکستان کو مزید مشکلات اور مصائب دو چار کر دیتا ہے۔ کیا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ان سازشوں کے بعدا اعتماد کی بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ قومی مسائل کے معاملے میں مشاورت کی اہمیت و افادیت کو نظر انداز کر تی رہی ہے۔پارلیمنٹ کا یہ آئینی کردار ہو تا ہے کہ وہ قومی مسائل کے ہر پہلو پر بحث و تمحیص کے ذریعہ ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کر ے لیکن حکومت وقت پار لیمنٹ کو پس پشت ڈال کر محض کابینہ کے ذریعہ ہر فیصلہ کرنے کی روش پر گامزن ہے۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے بعد یہ دوسرا فیصلہ ہے جو بیرونی دبائو میں آ کر کیا گیا ہے۔تاہم حکومت کے اس اقدام پر تاجر برادری اور کاشتکاروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ چنانچہ چاول برآمد کر نے والے تاجروں نے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستانی چاول کی تجارت متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کئے ہیں۔ کاشتکاروں کی جانب سے بھی سبزیوں اور دوسری اجناس پر منفی اثرات کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ تحریر: غلام محمد خالد