طنز ومزاح کے مفہوم تلاش کرنے کے لئے ہم نے لائبریری اور ڈکشنریاں کھنگال ڈالیں مختلف کتب سے تلاش کے بعد طنزومزاح کے معانی جو ہم جان پائے کہ طنز کے معانی تمسخر،رمز کے ساتھ بات کرنااور مزاح کے معانی خوش طبعی ،مذاق ، ہنسی کے ہیں۔ بلاشبہ طنزومزاح ادب کی مشکل ترین اصناف میں سے ایک صنف ہے اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں مزاح نگار بننے کی سوجھی سو ہم پوری ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ طنزومزاح کے میدان میں اتر آئے لیکن زیادہ دیر نہ ٹھہر پائے اپنا سامنہ لے کر نامراد لوٹے ۔
بڑے بے آبرو ہو کر نکلے تیرے کوچے سے۔۔۔۔۔طنزومزاح کی تاریخ دیکھنے پرپتا چلتا ہے سب سے پہلے غالب نے اپنے خطوط میں طنزومزاح کی داغ بیل ڈالی ۔موجودہ دور میںطنزومزاح کے میدان میں بلاشبہ مشتاق یوسفی ،عطاالحق قاسمی بہت بڑے نام ہیں۔ نوجوان مزاح نگاروں میں گل نوخیز اختر،حافظ مظفر محسن کو کون نہیں جانتا!!جہاں تک میرا ناقص ذہن سوچتا ہے میرے خیال میں طنز کبھی بھی مزاح کی ۔
“پھکی”کے بغیر ہضم نہیں ہو سکتا!!۔ایک جینوئن مزاح نگار جہاں معاشرے کی کسی خرابی پر طنزومزاح کے تیر برساتا ہے وہیں معاشرے کواصلاح کا راستہ بھی دکھاتا ہے اوریہی ایک اچھے مزاح نگار کی خوبی ہوتی ہے۔حافظ مظفرمحسن آج کے دور کا خوبصورت مزاح نگار ہے۔حافظ مظفر محسن کا قلم طنزومزاح کے ایسے پھول برساتا ہے جن کی خوشبو قاری کو اپنا مستقل اسیر بنا لیتی ہے۔حافظ صاحب شاعری بھی خوب کرتے ہیں بچوں کے ادب کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں اورکہانیوں سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔پہلی کتاب جاگو ہوا سویرا کو خوب پذیرائی ملی رائیٹر گلڈادبی انعام بھی ملا۔
روشن آنکھیںان کی دوسری کتاب تھی جس پر انھیں نیشنل بک فاونڈیشن کی طرف سے انعام سے نوازا گیا۔ان کی کتب سکندر خان کی واپسی،،ہیلمٹ ،لفافہ،،سیاسی آلودگی،،بوٹا مائی فرینڈ،،ادھ کھلا گلاب اور ،،نیا دور جدید ہتھیار،،کو علمی و ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔حال ہی میں نئی آنے والی کتاب ،،بونا نہیں بے وقوف،،طنزومزاح کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ویسے تو تمام مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیںلیکن کبھی آپ کو یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہو تو ، تھانے کا کامیاب دورہ،،بونا نہیں بے وقوف،،شادیاں عام۔ لاقیں بھی عام،انارکلی کی سیر۔۔عوام کے وسیع تر مفاد میں،،آتشی گلابھی ساڑھی سے ڈینگی بخار تک،ہیلو ہیلو ،ٹرن ٹرن ،ٹوں ٹوں،نکا موچی وڈا موچی،،شریف آدمی کا بدلتا فیصلہ، ضرور پڑھیے گا!!۔حافظ مظفر محسن فی البدیہہ ایسے جملے برساتا ہے کہ سننے والے کے ہنسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔
اگر کسی کو نہ ہنسنے کی بیماری ہو تو میرا مشورہ ہے کہ وہ حکیم حافظ مظفر محسن سے ضرور ملے انشااللہ ضرور آفاقہ ہو گا۔چند دن پہلے ہمیں بھی یہ مرض لاحق تھا حافظ مظفر محسن سے ملنے کے بعداس مرض کا نام ونشان باقی نہیں ہاں البتہ ایک نیا مرض لاحق ہو گیا میری “وکھیوں “میں درد رہتا ہے۔اگر آپ میں سے کسی کو ان سے ملنے کا اشتیاق ہو تو عصر کے بعد اور”ڈینگی ٹائم” سے پہلے باغ جناح چلا جائے واکنگ ٹریک پر شمال سے جنوب کی جانب گرتے ہوئے”پف”(چیر) ڈھول نما پیٹ (بقول گل نوخیزناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتا)کے اوپر آپ کو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آئے گا وہ یقینا حافظ مظفر محسن کا ہو گا۔حافظ صاحب جتنے اچھے مزاح نگار ہیں اس سے بڑھ کر اچھے انسان ہیں۔میرے چند الفاظ کبھی بھی اتنے خوبصورت انسان کی خوبصورتی نہیں بیان کر سکتے ۔بونا نہیں بے وقوف کھولی جو تیری کتاب محسن بونا نہیں بے وقوف آئی دل سے اک ہی صدا سونا نہیں بے وقوف تحریر: فرخ شھباز وڑائچ
طنزومزاح کے مفہوم تلاش کرنے کے لئے ہم نے لائبریری اور ڈکشنریاں کھنگال ڈالیںمختلف کتب سے تلاش کے بعد طنزومزاح کے معانی جو ہم جان پائے کہ طنز کے معانی تمسخر،رمز کے ساتھ بات کرنااور مزاح کے معانی خوش طبعی،مذاق،ہنسی کے ہیں۔بلاشبہ طنزومزاح ادب کی مشکل ترین اصناف میں سے ایک صنف ہے اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں مزاح نگار بننے کی سوجھی سو ہم پوری ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ طنزومزاح کے میدان میں اتر آئے لیکن زیادہ دیر نہ ٹھہر پائے اپنا سامنہ لے کر نامراد لوٹے ۔
بڑے بے آبرو ہو کر نکلے تیرے کوچے سے۔۔۔۔۔طنزومزاح کی تاریخ دیکھنے پرپتا چلتا ہے سب سے پہلے غالب نے اپنے خطوط میں طنزومزاح کی داغ بیل ڈالی ۔موجودہ دور میںطنزومزاح کے میدان میں بلاشبہ مشتاق یوسفی ،عطاالحق قاسمی بہت بڑے نام ہیں۔نوجوان مزاح نگاروں میں گل نوخیز اختر،حافظ مظفر محسن کو کون نہیں جانتا!!جہاں تک میرا ناقص ذہن سوچتا ہے میرے خیال میں طنز کبھی بھی مزاح کی ۔
“پھکی”کے بغیر ہضم نہیں ہو سکتا!!۔ایک جینوئن مزاح نگار جہاں معاشرے کی کسی خرابی پر طنزومزاح کے تیر برساتا ہے وہیںمعاشرے کواصلاح کا راستہ بھی دکھاتا ہے اوریہی ایک اچھے مزاح نگار کی خوبی ہوتی ہے۔حافظ مظفرمحسن آج کے دور کا خوبصورت مزاح نگار ہے۔حافظ مظفر محسن کا قلم طنزومزاح کے ایسے پھول برساتا ہے جن کی خوشبو قاری کو اپنا مستقل اسیر بنا لیتی ہے۔حافظ صاحب شاعری بھی خوب کرتے ہیں بچوں کے ادب کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں اورکہانیوں سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔پہلی کتاب جاگو ہوا سویرا کو خوب پذیرائی ملی رائیٹر گلڈادبی انعام بھی ملا۔
روشن آنکھیں ان کی دوسری کتاب تھی جس پر انھیں نیشنل بک فاونڈیشن کی طرف سے انعام سے نوازا گیا۔ان کی کتب سکندر خان کی واپسی،،ہیلمٹ ،لفافہ،،سیاسی آلودگی،،بوٹا مائی فرینڈ،،ادھ کھلا گلاب اور ،،نیا دور جدید ہتھیار،،کو علمی و ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔حال ہی میں نئی آنے والی کتاب ،،بونا نہیں بے وقوف،،طنزومزاح کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ویسے تو تمام مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیںلیکن کبھی آپ کو یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہو تو ، تھانے کا کامیاب دورہ،،بونا نہیں بے وقوف،،شادیاں عام۔ لاقیں بھی عام،انارکلی کی سیر۔۔عوام کے وسیع تر مفاد میں،،آتشی گلابھی ساڑھی سے ڈینگی بخار تک،ہیلو ہیلو ،ٹرن ٹرن ،ٹوں ٹوں،نکا موچی وڈا موچی،،شریف آدمی کا بدلتا فیصلہ، ضرور پڑھیے گا!!۔حافظ مظفر محسن فی البدیہہ ایسے جملے برساتا ہے کہ سننے والے کے ہنسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔
اگر کسی کو نہ ہنسنے کی بیماری ہو تو میرا مشورہ ہے کہ وہ حکیم حافظ مظفر محسن سے ضرور ملے انشااللہ ضرور آفاقہ ہو گا۔چند دن پہلے ہمیں بھی یہ مرض لاحق تھا حافظ مظفر محسن سے ملنے کے بعداس مرض کا نام ونشان باقی نہیں ہاں البتہ ایک نیا مرض لاحق ہو گیا میری “وکھیوں “میں درد رہتا ہے۔اگر آپ میں سے کسی کو ان سے ملنے کا اشتیاق ہو تو عصر کے بعد اور”ڈینگی ٹائم” سے پہلے باغ جناح چلا جائے واکنگ ٹریک پر شمال سے جنوب کی جانب گرتے ہوئے”پف”(چیر) ڈھول نما پیٹ (بقول گل نوخیزناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتا)کے اوپر آپ کو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آئے گا وہ یقینا حافظ مظفر محسن کا ہو گا۔حافظ صاحب جتنے اچھے مزاح نگار ہیں اس سے بڑھ کر اچھے انسان ہیں۔میرے چند الفاظ کبھی بھی اتنے خوبصورت انسان کی خوبصورتی نہیں بیان کر سکتے ۔بونا نہیں بے وقوف کھولی جو تیری کتاب محسن بونا نہیں بے وقوف آئی دل سے اک ہی صدا سونا نہیں بے وقوف