چکوال کی ایک دور افتادہ بستی خیرپور میں داخل ہوا تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ میرے استقبال کیلئے آئے ہوئے چند اہل دیہات کے ہمراہ ہم سیدھے مسجد چلے گئے جہاں ہم نے نماز ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے حال ہی میں کشمیر کی سرحد پر شہید ہونے والے نائک اسلم کے ماموں نذر حسین اعوان سے کہا کہ مجھے آپ کے جو ان سال بھانجے اسلم کی جان کے زیاں کا افسوس ہے۔ نذر حسین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ سر افسوس کس بات کا۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے پاکستان کی سلامتی کیلئے اپنے خاندان کے ایک نوجوان کا خون پیش کیا ہے۔ چکوال کی دھرتی اور خصوصا خیرپور کی کھر دیر اعوان برادری سے ہم مزید جانوں کے نذرانے دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ یہ باتیں سن کر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا اور میرا یقین اس بات پر اور کامل ہو گیا کہ اللہ کے کرم اور ہماری افواج اور پوری قوم کے اِن بلند حوصلوں کی وجہ سے پاکستان کی تسخیر کا خواب دیکھنے والے انشاءاللہ منہ کی کھائیں گے۔
یہ باتیں کرتے ہوئے ہم مسجد سے نائک اسلم شہید کی والد ہ کے پاس پہنچ گئے۔ میں نے کہا خالہ جان آپ کا بچہ ایک قابلِ فخرافواجِ پاکستان کا بہادر سپاہی تھا ۔اسکی شہادت پر میں آپ کا دکھ تقسیم کرنے اورآپ کو حوصلہ دینے آیا ہوں۔ گاؤں کی ہماری اس ناخواندہ ماں نے جواب میں فورا کہا کہ جنرل صاحب ملکہ ترنم نور جہاں یہ بالکل ٹھیک کہتی تھی کہ: اِے پتر ہٹاں تے نئی وکدے آبدیدہ آنکھوں سے مجھے شہید کی والدہ نے ایک فوٹو دکھایا اور کہا کہ یہ اسلم کا فوٹو ہے۔ فوٹو چونکہ مختلف تھا تو میں نے عرض کیا کہ خالہ جان یہ تو نائک اسلم شہید کا وہ فوٹو نہیں جو میں نے اخبار میں دیکھا ہے۔
وہ کہنے لگیں کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ اسلم شہیدکے چچا نائک اسلم کا فوٹو ہے جو1971کی جنگ میں شہید ہوئے تھے اور انکی شہادت کے بعد ہمارے خاندان میں جو پہلا بچہ پیدا ہوا،اس کا نام بھی ہم نے شہید کی عقیدت میں اسلم رکھا اور آج نائک اسلم دوئم بھی شہید ہو گیا۔ قارئین چکوال پاکستان کا ایک ایسا ضلع ہے جو زیادہ تر دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے۔ بارہ چودہ لاکھ کی آبادی میں سے تین چوتھائی لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں۔ ان بستیوں میں رہنے والے زیادہ تر افواج پاکستان کے مجاہد یاغازی ہیں اور یہ بات قابل فخر ہے کہ ان بستیوں کے قبرستانوں میں بھی بہت بڑی تعداد شہدا کی ہے ۔خیر پور سے جب میں واپس آرہا تھا تو راستے میں پتہ چلا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر شہید ہونیوالے ایک اور فوجی نوجوان کا جسد خاکی بھی ہماری چکوال کی تحصیل تلہ کنگ میں پہنچنے والا ہے۔
America
اس اداسی کی فضاء میں جب میں اپنے گاں کی طرف واپس جاتے ہوئے میرے ذہن میں ذرا برابر بھی شک نہ تھا کہ پاکستان کی سلامتی کا دشمن نمبر1 مشرقی سرحد کے پار ہندوستان ہے جبکہ مغربی سرحد کے پار افغانستان پر قابض امریکہ بھی پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ہمارے اندرونی خطرات کے پیچھے بھی یہی طاقتیں ہیں۔ اس لئے جب ہماری افواج کی قیادت یا حکومت وقت یہ کہتی ہے کہ اب نمبر1 خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قومی سلامتی کے دشمنوں نے گٹھ جوڑ کرکے اپنی حکمتِ عملی بدل لی ہے اور اب وہ پاکستان کے ساتھ بالواسطہ جنگ کرنے کی بجائے ہمیں آپس میں لڑا کر اندر سے کھوکھلا کر نا چاہتے ہیں چونکہ ایٹمی ہتھیاروں ، میزائلوں ،لڑاکا ہوائی جہازوں، ایٹمی ابدوزوں اور کیمیکل ہتھیاروں سے لیس ہماری سرحدوں کے پاس اپنی توپوں اور ٹینکوں کے نشانے ہمارے اوپر باندھے ہمارے دشمنوں کو ہم کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اب جب امریکہ نے پاکستان کو افغانستان کے معاملے میں اعتماد میں لینے کی بات چیت شروع کی ہے تو ہندوستان کو یہ بات ناگوار گذری ہے جس کا اظہار ہماری کشمیر کی سرحدوں پر پچھلے دس دنوں میں بارہ خلاف ورزیوں سے کیا گیا۔
صرف امن کی آشا اور ہندوستان کو تجارتی سہولیات دینے سے نہ تو ہندوستان اور پاکستان میں دیر پا مراسم قائم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی جنوب ایشامیں ایک دائمی امن کی فضاء جنم لے سکتی ہے جو اس خطے کے غریب عوام کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ نائک اسلم کی شہادت اور اسکے بعد ہندوستانی میڈیا کی بے ہودہ چیخ و پکار اور جھوٹے، بے بنیاد اور لغو الزامات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہندو دماغ کے اندر پاکستان کا عکس بہت ہی دھندلا ہے اور انکے دل سے مسلمانوں کے خلاف حقارت میں65 سال گذر جانے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں جب ایک ہندوستانی میجر جنرل نے یہ کہا کہ کشمیر کا مسئلہ پر اب اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں اور یہ کہ اب یہ پاکستان اور ہندوستان کا دو طرفہ معاملہ رہ گیا ہے تو میں نے فورا اس کی توجہ سلامتی کونسل کی قراردادنمبر122کی طرف دلوائی اور کہا کہ کیا سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی تنسیخ ہو چکی ہے۔ اگر نہیں تو پھر کشمیر آج بھی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر122کے مطابق حل طلب ہے۔ یہ قرارداد کہتی ہے کہ: “The final disposition of the state of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations” یعنی کشمیر کے مسئلے کا فائنل حال صرف اور صرف اہل کشمیر کی اس مرضی سے ہو گا جس کا اظہار وہ جمہوری طریقے سے اور آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کریں گے۔
UNMOGIP
ہندوستان اور پاکستان اقوامِ متحدہ جیسے ایک بین الاقوامی ادارے کی اِن قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا مجاز نہیں۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر307 ہے جو یہ کہتی ہے کہ: فوری جنگ بندی ہو گی اور افواج پیچھے ہٹائی جائیں گی تاکہ جنگ بندی کے احکامات کو یونائیٹڈ نیشن ملٹری ابزرورگروپ اِن انڈیا اینڈ پاکستان (UNMOGIP) اپنی نگرانی میں موثر بنا سکے۔ اِن واضح احکامات کی موجودگی میں ہندوستان نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ماننے کو تیار ہے نہ وہ اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو سرحد تک آنے کی اجازت دیتا ہے۔ حالیہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات بھی ہندوستان اقوامِ متحدہ کے مبصرین کروانے پر تیار نہیں۔ ایسی صورت میں ہندوستان پاکستان تعلقات میں بہتری کی توقع ایک خام خیالی سے کم نہیں۔ ایسی صورتِ حال میں امن کی آشا کا پرچار کرنے والے ، ہمارے نائک اسلم شہید اور حوالدار غلام محی الدین شہید کے لواحقین کو ان شہداکے خون کا کیا جواز پیش کریں گے۔