بیورو کریسی

Najeem Shah

Najeem Shah

بیورو کریسی دو لفظوں بیورو اور کریسی کا مجموعہ ہے۔ بیورو سے مُراد دفتر اور کریسی سے مُراد نظام ہے جبکہ بیورو کریٹ سے مُراد دفتری سربراہ ہوتاہے۔ اسی لیئے بیورو کریسی کو دفتری حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی لفظ بیورو کریسی دراصل فرانسیسی نژاد لفظ ہے اور اس کا اطلاق ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اس اصطلاح کو اٹھارہویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا ۔ نپولین کے دورِ حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو اور سرکاری عہدے داروں کو بیورو کریٹ کہا جاتا تھا۔ملک پر کوئی بھی حکمران ہو، قانون نافذ کرنے اور عمل کرانے کی ذمہ داری سرکاری کارندوں (بیورو کریسی) پر ہوتی ہے۔ وہ محکموں کو چلاتے اور خادم بن کر عوام کی ضروریات پوری کرتے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہیں۔ اس لیئے اصطلاحی معنوں میں بیورو کریسی سے مراد سول سروس کا نظام ہوتا ہے جسے عرفِ عام میں استہزائیہ طور پر نوکرشاہی بھی کہتے ہیں۔

 

سارے کام کرنا اکیلے انسان کے بس کی بات نہیں اس لیئے نظامِ حکومت چلانے کے لیئے ذمہ داریاں اداروں اور اُن سے منسلک افراد کو تفویض کر دی جاتی ہیں۔ یہ ادارے ایک ریاست کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، وزراء آتے جاتے رہتے ہیں، ان کے قلمدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر بیورو کریسی موجود رہتی ہے البتہ نظامِ حکومت سنبھالنے کے بعد ہر حکومت کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ وہ بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرکے منظور نظر افراد کو بھرتی کرے۔ اس قسم کے نظامِ حکومت کے ناقدین کی رائے ہے کہ اس نظام سے کام میں طوالت، تنگ نظری اور عدم توجہ پیدا ہوتی ہے اور عوام سے رعونت برتی جاتی ہے مگر اس طریقہ کار کے حمایتی کہتے ہیں کہ اس سے فرض، باضابطہ پن، تسلسل کار اور اخلاق ٹپکتا ہے۔ اس نظام میں چونکہ حکومت کے اعلیٰ سرکاری افسران پس پردہ حکومت چلا رہے ہوتے ہیں اس لیئے ایک نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جدید ریاستوں میں آئے دن حکومتیں پیچیدہ منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں ، وہاں ضابطہ پرست عاملہ کا قوت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔مروجہ نظامِ حکومت سے قطعہ نظر بیورو کریسی امورِ مملکت چلانے کے لیئے ناگزیر ہے مگر اس کا انحصار حکومتی ڈھانچے پر ہے کہ وہ اسے کیا کردار تفویض کرتا ہے۔

 

بیورو کریسی کا کردار دنیا میں ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے جبکہ برصغیر کی آزادی اور برطانوی تسلط کے خاتمے کے بعد سے یہ نوکر شاہی پاکستان اور بھارت کو بھی ورثے میں ملی بلکہ دونوں ملک بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد میں بیورو کریسی کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں بیورو کریسی کام نہ کرنے اور اس میں رکاوٹیں ڈالنے میں ماہر تصور کی جاتی ہے ۔ بظاہر بیورو کریسی منتخب نمائندوں کے ماتحت ہوتی ہے لیکن اسکے باوجود ہر حکومت اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اسے قرار دیتی ہے ۔ہر حکومت برسراقتدار آتے ہی بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے من پسند افراد بھرتی کر دیتی ہے اور پھر انہی سے نالاں نظر آتی ہے۔ یہی بیورو کریسی وزارتوں کی ناکامی اور ذمہ داری کا مؤجب بھی بنتی ہے۔ اس کی ایک وجہ عوامی نمائندوں اور بیورو کریسی دونوں میں رائٹ مین فار رائٹ جاب یعنی صلاحیت کے مطابق ذمہ داری کے فارمولے کا فقدان ہوتا ہے ۔ دوسری بڑی وجہ بیورو کریسی میں سفارشی اور کرپٹ عناصر کا وجود ہے جبکہ تیسری بڑی اور اہم وجہ عوامی نمائندوں کا کم تعلیم یافتہ ہونا ہے ورنہ ایک پڑھا لکھا اور چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا شخص کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔

 

بیورو کریسی عوامی نمائندوں کی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اُٹھا تی ہے اور سیاست دانوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے مخصوص مقاصد اور مفادات کے لیئے اُن کے اقتدار پر ڈاکہ ڈالتی ہے۔ بدقسمتی سے ہر حکمران بیورو کریسی کے ہاتھوں سخت عاجز رہتا ہے بلکہ ماضی کے کئی حکمران تو اپنے دورِ حکومت میں برملا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ بیورو کریسی نے کرپشن و اقرباء پروری کو فروغ دیا، اپنے لامحدود اختیارات کے سبب حکمرانی قائم کرکے ملکی وسائل پر گرفت قائم کر رکھی ہے۔ بیورو کریسی کرپشن کے طریقے بتاتی اور حصہ بھی وصول کرتی ہے جبکہ سفارشی اور نااہل افراد اُمورِ مملکت چلانے سے عاری ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر یہ نہ صرف خود ایک طاقت ور جماعت بن جاتی ہے بلکہ حکومتوں کے زوال کا مؤجب بھی بنتی ہے۔اس کے علاوہ بیورو کریسی کے اندر دشمن کے ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں جو کسی خاص مفاد میں کام کرتے ہیں۔ جب حکومتیں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے منظور نظر اور سفارشی افراد کو ماتحت محکموں میں بھرتی کرنا شروع کر دیں تو پھر بیورو کریسی سے بھی کسی بہتری کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی بیورو کریسی انتہائی سست، نالائق، حد سے زیادہ حساس اور بدعنوان واقع ہوئی ہے۔

 

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج تک بیورو کریسی کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکا ۔ جس کی وجہ سے یہ ملک قیادت کی صلاحیتوں سے عاری بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ بیورو کریسی اپنے بے پناہ اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے ہر حکومت کو غیر مؤثر اور بے دست و پا بنا دیتی ہے۔ نوکر شاہی کیلئے قانون و ضابطے موم کی ناک ہوتے ہیں جسے جدھر چاہا موڑ لیا۔ پوری دنیا میں پالیسیاں ہمیشہ منتخب قیادت بناتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام بیورو کریسی کرتی ہے حالانکہ اس کا کام صرف وضع کردہ پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے۔ بیورو کریسی کا ملک چلانا حکومتی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے لیکن اگر عوامی نمائندے خود نااہل اور صلاحیت سے عاری ہوں تو پھر اُنہیں مجبوراً بیورو کریسی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بیورو کریٹ اس قدر سیاست زدہ ہو چکے ہیں کہ اُنہیں سیاست دانوں کے جلسے کامیاب بنانے کے لیئے افرادی قوت بھی مہیا کرنا پڑتی ہے۔ فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ ہر جگہ بیورو کریٹ موجود ہیں لیکن جو ادارے انتہائی منظم اور قابل افراد پر مشتمل ہوں وہاں کی بیورو کریسی بھی انتہائی فرض شناس واقع ہوتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف بیورو کریسی سے منظور نظر ، سفارشی اور کرپٹ افراد کو نکال باہر کیا جائے بلکہ عوامی نمائندوں کو بھی اُن کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔
تحریر: نجیم شاہ