سرکار دو عالم حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں! ائے ایمان والو بیٹیاں اللہ کی رحمت اور بیٹے نعمت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک صحابی نے آپکی خدمت میں عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں میں سے مقام کس کا بلند ہے۔
رحمت یا نعمت کا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! نعمت آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اس کے لیے سخت محنت اور جدو جہد کرنی پڑتی ہے اکشر ماںباپ کی پہلی خواہش بیٹے کی ہوتی ہے جسکو پانے کے لیے وہ دعائیں مانگتے ہیں منتیں مانتے ہیں یہاں تک کے بیٹے کی خواہش کو پوری کرنے کے لیے خصوصی علاج بھی کروائے جاتے ہیں یعنی ایک بڑی جدوجہد کرنے بعد جاکر کہیں بیٹے جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
اب اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیٹے کی خواہش ہم لوگوں کی ذاتی ہوتی ہے جبکہ بیٹی جیسی رحمت اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے عطاء کرتا ہے یعنی بیٹے جیسی نعمت ہماری اپنی پسند اور بیٹی جیسی رحمت اﷲ تعالیٰ کی پسند ہے اب فیصلہ آپ خود کر لیں کہ نعمت کا مقام بلند ہوا یا رحمت کا یا پھر یوں کہہ لیں کہ ہماری پسند کا مقام بلند ہے یا پھر اﷲکی پسند کا۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا بھی بیٹیوں کے بارے میں یہ فرمان ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر دکھ یا افسوس کا اظہار مت کیا کرو بلکہ بیٹی کی پیدائش پر خوشیاں منایا کرو کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر ایک سچے مسلمان کے گھر شادی کے پہلے سال بھی بیٹی پیدا ہوتی ہے اور پھر دوسر ے سال بھی بیٹی ہی پیدا ہوتی ہے تو اﷲتعالیٰ ان دونوں بیٹیوں کے صدقے اُنکے ماں باپ پر جنت واجب کردیتا ہے۔
معزز قارئین میں اس کالم میںاپنے محدود علم اور سوچ کی مناسبت سے عورت کا وہ مقام بتانے کی کوشش کر رہا ہوں جو ہم بُھلا چکے ہیں معزز قارئین وہ عورت جو کبھی ماں کبھی بہن کبھی بیٹی تو کبھی بیوی کے روپ میں نظر آتی ہے یہ وہ عظیم ہستی ہے جو ان تمام رشتوں کو بڑی ایمانداری اور احسن طریقے سے نبھاتی ہے کیونکہ یہ تمام رشتے ہماری زندگیوں میں نہائیت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لیے ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے بارے میں مختلف احادیث بھی بیان کی ہیں کہ “بیٹی اللہ کی رحمت ہے دوسری حدیث بیوی کے بارے میں ہے کہ” ہر نیک عورت اپنے خاوند کے ایمان میں شریک ہے اور تیسری حدیث ماں کے متعلق ہے کہ” جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
تحریم ِعورت اور اس کی ہماری زندگیوں میں اہمیت کو سمجھانے کے لیے رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ احادیث بیان کی ہیں تاکہ ہم لوگ عورت کے مقام کو سمجھ سکیں اور اُن کو وہ رتبہ اور عزت دیں جن کا وہ حق رکھتی ہیں لیکن آج کے جدید دور کا ماڈرن انسان جو اپنے آپ کو بڑا داناء عقلمند اور علم والا سمجھتا ہے اس کی ماڈرن سوچ کے مطابق عورت پائوں کی جوتی ہے اور عورت کو نیچا دکھانے میں ہی ان کی مردانگی چھپی ہے لیکن ایسی گندی سوچ کے حامل انسان میری نظر میں نامرد اور دنیا کا سب سے بڑے جاہل ہیں اور ان کی جہالت کی وجہ صرف اور صرف اسلام اور اسلامی تعلمیات سے دوری ہے کیونکہ ہم لوگ دور جدید کے دنیا وی علوم اور نت نئی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے علم میں اس قدر مگن ہو گئے ہیں کہ ہمیں اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ ہم فرمان الہی ٰ یا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ سکیں یا پھر قرآن پاک کا ترجمہ کے ساتھ معطالعہ کر سکیں جس میں ہمارے لیے زندگی گزارنے کا مکمل نصب العین موجود ہے۔
Holy Quran
اس میں کوئی شک نہیںکہ قرآن پاک دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس سے ہم زندگی کے ہر موڑپر اور ہر طرح کی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں لیکن ہماری یہ بدنصیبی ہے کہ اس عظیم کتاب کو ہم لوگوں نے غلافوں میں لپیٹ اپنے گھر وں میں صرف اس لیے رکھا ہوا کہ ہمارے اندر یہ احساس زندہ رہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ آج کے ماڈرن والدین اپنے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم سے زیادہ ضروری کمپیوٹر کی تعلیم دلوانا سمجھتے ہیں ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ والدین اپنے بچوں کو قرآن پاک پڑھتا دیکھ کر خوشی محسوس کرتے تھے لیکن آج کے دور میں والدین اپنے بچوں کو فیس بک پر چیٹنگ کرتے دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہی میں جدید علوم حاصل کرنے ہرگز خلاف نہیں ہوں کیونکہ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں یہ تمام علوم بھی حاصل کرنے کی خاص ضرورت ہے۔
جدید علوم کی چاہت میں ہم قرآن پاک کی تعلیم کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر آج ہم اپنے اصل راستے سے بھٹک چکے ہیں اور بے چینی کا شکار ہیں۔اگر بڑوں میں چھوٹوں کے لیے شفقت اور چھوٹوں میں بڑوں کے لیے عزت نہیں رہی اور کوئی درندہ صفت باپ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی صرف اس لیے مار دیتے ہیں کہ بیٹی کیوں پیدا ہوئی یہ جاہل ایسا فعل کرنے سے پہلے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن کی کوکھ سے وہ پیدا ہوئے ہیں۔
وہ بھی تو کبھی کسی کی بیٹیاں تھیں دراصل یہی وہ وجوہات ہیں ہماری اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور ہونے کی اسلام میں عورت کا مقام اور بیٹیوں سے کس طرح کی شفقت اور محبت سے پیش آنا چاہیے یہ سب کچھ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پنی زندگی میں ہمیں کر کے دکھایا تاکہ ہم سب مسلمان اسی راستے پر چل سکیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی بیٹی حضرت فاطمہ علیہ السلام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لیے آتی تھیںتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی کے استقبال میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
اب ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم اس راستے پر چل رہے ہیں جو راستہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دیکھایا تھا؟ کیا ہم آج کی عورت کو وہ عزت رتبہ اور مقام دے رہے ہیں جس کی تعلیم ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دی تھی؟ لیکن اگر آج بھی اس تعلیم یافتہ دور میں عورت پہلے والے جہالت کے دور کی طرح بے بسی کی تصویر بنی ظلمت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور ہم سچے مسلمان ہونے کے دعوے کرنے کے باوجود عورت کے ساتھ وہی سفاک روئیہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی اجازت ہمارا مذہب ہمیں نہیں دیتا تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ ہمیں حقیقی اور کامل ایمان نصیب نہیں ہے۔
Kifait Hussain
تحریر:کفایت حسین کھوکھر صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(یو۔اے ۔ای)