چائے کی محفل میں بیٹھے محوِ گفتگو ہمارے ایک دوست اپنے دوست کا قصہ سنانے لگے کہ ان کے بھائی تقریبا ً تیس پینتیس سال سے اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عر ب میں مقیم ہیں انہیں کچھ عرصے سے طبیعت میں ناسازگی کی شکایت ہونے لگی جس میں روزبروزاضافہ ہونے لگا جس پر انھوںنے ڈاکٹر سے رجوع کیا ڈاکٹر نے مکمل چیک اپ کے بعد کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے ٹیسٹ کی رپورٹ سامنے آنے پر پتا چلا کہ انہیں خون کا سرطان ہے (بلڈکینسر )لہذا ڈاکٹرنے انہیں بون نیرو کے بعد پلازمہ فریسِز کا مشورہ دیا۔اب چونکہ انتقالِ خون (Blood Transfusion)کے لیے ان کے بھائی کوپاکستان سے سعودی عرب آنا تھا ۔ان صاحب نے سعودی گورنمنٹ سے درخواست کی کے انہیں بلڈ کینسر ہے اور انکا پلازمہ فریسز ہونا ہے ۔
جس کے لیے ان کے بھائی کو پاکستان سے آنے کی اجازت دی جائے ان کی اس عرضی کو سعودی حکام نے فوراً رد کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے میںآپ سے تعاون نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک رِسکی معاملہ ہے پلازمہ فریسز سے دونو کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لہذا ہم آپ کے بھائی کے ساتھ یہ رسک نہیں لے سکتے ان صاحب نے بڑی کوششیں کی لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں ۔ اتفاق سے ان صاحب کے پاس کنیڈین شہریت بھی تھی وہ کنیڈا گئے اور وہی عرضی کنیڈین گورنمنٹ کو دی جو اس سے پہلے وہ سعودی گورنمنٹ کو دے چکے تھے ۔ کنیڈین گورنمنٹ نے اسی رفتار سے ان صاحب کی عرضی کا جواب دیا جس رفتار سے سعودی حکام نے دیا تھا ۔
لیکن دونوں کے جواب میں کافی فرق تھا کنیڈین گورنمنٹ نے کہا کہ جناب آپ ہمارے شہری ہیں ہم آپ کے ساتھ مکمل تعاون کرینگے آپ کے بھائی کو یہاں بلائیں گے اور آپ کے علاج کے تمام اخراجات بھی کنیڈین گورنمنٹ ہی برداشت کرے گی ۔لہذا آپ بالکل پریشان نہ ہوں اب آپ کی تمام ترذمہ داری کنیڈین گورنمنٹ کے ذمہ ہے۔ قارئین غور طلب بات یہ ہے کہ وہ حکمران جو اسلامی فلاحی ریاستوں کے والی وارث بن کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ صر ف اس بات کا جواب دیدیں کہ خدمتِ انسانی اور اس کی فلاح و بہبود کس کا شیوا تھا … ؟اور آج کس نے اسے اختیار کیا ہوا ہے۔آج بحیثیت مسلمان اپنے آپ کودیکھا جائے ، پریشانیوں مصیبتوں میں مبتلا یہ قوم خود سے پوچھے اپنے آپ کو اندر سے کھنگالے اور اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنے طرزِعمل اور اندازِ زندگی پر نگاہ ڈالیں تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ، اپنے رب سے کئے گئے شکوئوں کے جواب بھی مل جائیں گے ۔لیکن ہم اس امرپر غور کرنے کو تیا ر ہیں اور نہ ہی اس پر قائل ہونے کو تیا ر ،جہاں دیکھیں جس طرف نظر ڈوڑائیں ہر طرف بس لکیر کے فقیر نظر آئینگے ۔
یہی قومو ں کے وہ المیے ہیں جن سے قومیں زوال پذیر ہوتی آئی ہیں ۔65سال پہلے اسلام کے نام پرفلاحی ریاست حاصل کئے جانے والے اس ملک میں آج تک اسلام کا نفاظ ممکن بنایا جا سکا نہ حقیقی فلاحی ریاست کے طور پر پیش کیا جاسکا ۔ توکیا یہ اپنے رب سے غداری کی مرتکب نہ ٹھہرے ،کیا یہ اپنے رب سے کھلی بغاوت نہیں ہے۔؟ اور پھربھی ہم اس کی نصرت کا انتظار کرتے ہیں اس کی رحمتوں کے منتظر رہتے ہیں نافرمانی کی مستقیل روش اختیار کر کے کوئی کس طرح اپنے رب کو راضی رکھ سکتا ہے ایٹمی طاقت رکھنے والے اس ملک میں کراچی کی ایک فیکٹری میں لگی آگ بجھانے تک کی طاقت نہیں جہاں دو دن تک آگ کے شعلے بلند ہوتے رہے اور لوگ جلتے رہے، ملک بنے 65 سال ہوگئے لیکن ہم آج تک اس ملک میں ریسکیوں کا ایک ادارہ تک نہ بنا سکے جہاں ریاست کی رعایا کے لئے فلاح و بہبودکے ادارے تک نہیں ہیں اور اگر ہیںبھی تو وہ صرف وزیرو مشیروں کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔قارئین جب قومیں اپنا مقصد مرتبہ اور اپنی رواداری کو بالاتائق رکھ دیتی ہیں تو تباہی و شکست انکا مقدر بن جایا کرتی ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے جب جب قوموں نے اس طرح کا طرزِعمل اپنا یا اپنے مقصد کو فوت کر دیا اپنی رواداری کو بھلا کر اپنی تہذیب کے آنچل کو چھوڑ کر ان اصولوں کو پشِ پشت ڈال دیا جو انسانیت پر چلنے اور جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔ تو پھر اللہ رب العزت اپنی قدرت سے انہیں مختلف عذابوں میں جکڑ کر صفاء ہستی سے مٹادیتے ہیں ۔ ۔ یاد رکھیںجب قومیں اپنے رب کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرلیتی ہیں اور اس کے احکامات کو چھوڑ کر اپنی شناخت کو بھلا کر بے حسی کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں تو پھر سانحات جنم لیتے ہیں۔جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے کر درد سے بھری دا ستانیں چھوڑ جاتے ہیں۔ تحریر : عمران احمد راجپوت