اسلام آباد(جیوڈیسک)توہین عدالت کے نئے قانون کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی میں بعض جگہ تعصب کا تاثر ملتا ہے ۔توہین عدالت قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کر رہا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے کہا کہ جس شخص نے آپ کو تعصب کا اعتراض اٹھانے کا مشورہ دیا اس کی جانب سے ایک تحریری بیان جمع کروا دیں سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی کارروائی میں بعض جگہ تعصب کا تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے کہا وہ حقیقی تعصب نہیں بلکہ بظاہر تعصب کی بات کر رہے ہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر تعصب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ دولت مشترکہ کیپچاس ممالک ہیں کسی ملک کی عدالتی تاریخ سے بظاہر تعصب کی کوئی مثال دے دیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو ججوں کے متعصب ہونے کی وجوہات بھی دینی ہوں گی۔ یہ انداز بلکل غلط ہے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ججوں کو بدنام مت کریں،،،ایسے دلائل مت دیں جو آپ ثابت نہیں کر سکتے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ درخواست گزروں کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ جج اپنے حلف اور ضابطہ اخلاق کے تحت پابند ہیں کہ قانون کا مساوی اطلاق کریں۔ جج صاحبان اپنے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کریں گے تو تب ہی عدلیہ کا احترام بڑھے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کیا ہم یہ درخواستیں پانچوں ہائی کورٹس کو بھجوا دیں جس پر اٹرنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کا یہی تقاضہ ہے کہ آپ ان درخواستوں کو براہ راست نہ سنیں۔