اسلام آباد (جیوڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے تنازع پر صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائرکر دیا گیا۔اس ریفرنس میں عدالت سے تیرہ سوالات پر رہنمائی مانگی گئی۔
وزارت قانون کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے 12 صفحات پر مشتمل صدارتی ریفرنس میں تیرہ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا ججز تقرری میں سنیارٹی کا اصول مد نظر رکھا گیا؟ صدر مملکت ججز کی تقرری سے متعلق کیا اختیارات رکھتے ہیں؟ ججوں کی تقرری میں عدالتی کمیشن کس حد تک با اختیار ہے۔
پارلیمانی کمیٹی ججز تعیناتی کے حوالے سے کیا اختیارات رکھتی ہے؟ کسی کو جج بنانے کا معیار کیا ہے؟ کیا ججز تقرری میں سنیارٹی کے طے شدہ اصول نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟ کیا سینئر کے بجائے جونیئر جج عدالتی کمیشن میں بیٹھ سکتا ہے؟ کیا جونیئر جج کو عدالتی کمیشن میں بٹھانا غیر آئینی نہیں۔ کیا صدر کسی غیر آئینی اقدام کا جائزہ لینے کے لیے ججز تقرری کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا ۔ ایسا کمیشن جس کی رکنیت ہی غلط ہو اس کے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ کیا جب دو جج ایک ہی دن مقرر ہوں تو عمر میں زائد جج کو سینئر مانا جاتا ہے۔ کیا سینئر جج ریاض احمد کی جگہ جسٹس انور کاسی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مقرر کرنا جائز تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سات ججوں کی سیٹیں ہیں جبکہ اس وقت تین جج کام کر رہے ہیں۔