جشنِ مصورِ پاکستان

IQBAL DAY

IQBAL DAY

ابو ظبی۔ یو اے ای :  حکیم الامت شاعرِ مشرق کا یومِ ولادت پوری دنیا میں انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اور اسی سلسلے میں مجلسِ قلنندرانِ اقبال یو اے ای نے اس احترام میں اپنی چاہتوں کے رنگ بھرنے کیلئے ان کے ١٣٤ یومِ ولادت پر ایک خوبصو رت ادبی شام کا انعقاد کیا تاکہ اس عظیم فلسفی شاعر کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ قلندرانِ اقبال نے فکرِ اقبال کے حوالے سے شعرو ادب کے ایک نئے سلسلے کی بنیاد رکھی ہے جس کا بنیادی مقصد اقبال کے فلسفے ، اس کے نظریات اور شاعری کو عام آدمی تک پہنچا نا اور آگاہ کرنا ہے اس نئی فکر اور انداز کو متعارف کروانے کا سہرا مجلس قلندرانِ اقبال کے سر پرستِ اعلی پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے سر ہے۔ اپنے ا نہی  مقاصد میں حقیقتوں کے رنگ بھرنے کیلئے قلندرانِ اقبال نے ١٧ نومبر کو پاکستانی ایمبیسی یو اے ای کے سبزہ زار پر ایک انتہائی خوبصورت محفلِ شعرو سخن کا اہتمام کیا گیا ۔ قلندرانِ اقبال کی چار ماہ کے اندر یہ پانچویں نشست تھی جسمیں ہلِ دانش اور جویانِ ِ علم کی بے تابانہ شرکت نے ادبی نشستوں کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ قلندرانِ اقبال کی اس ادبی نشست کے دو حصے تھے۔ پہلے حصے میں پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے بصیرت افروز خطبے نے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ جبکہ دوسرے حصے میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ١٧ نومبر کو منعقد ہونے والی ادبی نشست کا موضوع تھا علامہ اقبال فارسی زبان کا عظیم شاعر اور پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے جس خوبصورت اور منفرد ا نداز میں اس موضوع پر روشنی ڈالی وہ سب کیلئے حیران کن بھی تھی اور معلوماتی بھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریر سے قبل ارسلان طارق بٹ نے علامہ اقبال کے تصورِ خودی پر ایک خوبصورت تقریر کی جسے حاضرین نے بڑا پسند کیا۔ ممبران آرگنائزنگ کمیٹی ۔۔۔طارق حسین بٹ۔۔۔ڈاکٹر صبا حت عاصم واسطی۔۔۔ شیخ واحد حسن۔۔۔عبدالسلام عاصم۔۔زیڈ اے بابر۔ رضوان عبداللہ۔۔۔ اس ادبی نشست میں یو اے ای کے تمام اہم شعرا نے شرکت کر کے اقبال سے اپنی محبت کی گواہی کو ثبت کیا۔ تمام شعر ایک ایسے شاعر کیلئے جمع ہو ئے تھے جس نے اپنی شاعری سے تاریخ کا رخ موڑا تھا۔مشاعرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اسکے مہمانِ خصوصی ع س مسلم تھے جنھیں قا ئدِ اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف اور یہ اعزاز حاصل تھا کہ انھوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں اپنی ایک نظم اس جلسے میں پڑی تھی جسکی صدارت قا ئدِ اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے۔صدرِ مجلس پاکستان ایمبیسی کے ویلفئر سیکرٹری میر فاروق لانگو و تھے۔ پاکستان ایمبیسی کے پاسپورٹ سیکرٹری نعیم چیمہ اور ایڈمن آفیسر عبدالجبار بھی ان کے ہمراہ موجود تھے ۔ ان دونوں حضرات کی معاونتکے بغیر پروگرام کا انقاد بڑا مشکل تھا ۔ گروپ چیف ایگزیکٹو روزنامہ الشرق انٹرنیشنل وسمندرپارانٹرنیشنل محمدعاطف ملک اور میاں منیر ہانس مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے رونقِ محفل تھے ۔نظامت کے فرائض پروگرام کے چیف آرگنائزر طارق حسین بٹ نے ادا کئے اور بڑی مہارت سے پرواگرام کی کاروائی کو آگے بڑھاتے رہے۔ تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت شیخ عبدالباسط کے حصے میں آئی  جبکہ ہدیہ نعت کی سعاد ت معروف نعت گو شاعر مقصوداحمدتبسم نے حاصل کی ۔۔ پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کا خطبہ اس تقریب کی جان تھا۔ وہ اپنے انتہائی عمیق ، علمی اور تحقیقی خطبے کے ساتھ مائک پر تشریف لائے ۔ انھوں نے  علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے حوالے سے کہا کہ ہم نے اقبال کی فارسی شاعری کوبھلادیا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی حالانکہ انکی شاعری کا ستر فیصد حصہ فارسی زبان میں ہے جن میں انکی اہم تصانیف اسرارِ خودی ،رموزِ بے خودی ،پیامِ مشرق اور جاوید نامہ ہیں۔ اقبال کی شاعری انسان کوعشقِ محمد صلی علیہ وآلہ وسلم سے متعارف کراتی ہے اقبال کی شاعری انسان کا خود کو پہچاننے کا نام ہے۔ اقبال کی شاعری ایران اورتاجکستان والوں نے مشعل راہ کے طورپراپنالی اور انقلابات پیدا کر دئے جبکہ ہمارے ہاں اقبال کو قوالوں کے حوالے کر کے سر دھنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ہمیں تو دنیا کو اس انقلاب سے روشناس کروانا تھا جو اقبال کی شاعری کا طرہِ امتیاز ہے لیکن دوسری اقوام ہم پر بازی لے گئیں ۔ ازل سے تھی یہ کشمکش میں اسیر۔۔۔ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیرسبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گران۔ پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں مجلس قلندرانِ اقبال کے سر پرستِ اعلی پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ اقبال کی شاعری میں انسان کا جو عمومی تصور جا بجا بکھرا ملتا ہے وہ جاوید نامے میں اپنی انتہائوں کو چھو لیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فارسی صرف ایران کی زبان نہیں ہے بلکہ درحقیقت برصغیرکی بھی مقبول زبان تھی جومختلف علاقوں میں بولی لکھی اورسمجھی جاتی تھی۔ اقبال ایک سچے عاشق رسول تھے اورانکاسینہ ایمان کی حرارت سے منورتھا۔ انھوں نے کہا کہ ایک رباعی جو اقبال کے عشقِ رسول  صلی علیہ وآلہ وسلم  کے دلی کیفیات کی آئینہ دار ہے وہ میں نے اپنے گھر میں فریم کروا کے لگائی ہوئی ہے اس سے بہتر رباعی عشقِ رسول  صلی علیہ وآلہ وسلم میں آج تک تخلیق نہیں کی گئی۔ ایک اچھوتااور دلنشیں انداز اس رباعی کے اندر ہے جو سرکارِ دوعالم  صلی علیہ وآلہ وسلم  سے علامہ اقبال کی وارفتگی، محبت اور چاہت کا راز فاش کرتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان نے کہاکہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی وفات پر ایران کے ملک اا لشعرا صادق سرمدکہتاہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ظاہری صورت کی زندگی تو موت کی نذرہو گئی ہے مگراسکی سیرت کی زندگی ہزاروں سال باقی رہے گی، وہ اپنی فکر کے اندر صدیوں کا سفر طے کرے گا اور آنے والی نسلیں اس کے شعری خزانے سے بہرہ ور ہوتی رہیں گی۔مولانا رومی کی پیروی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے جس وفورِ جذبات کے عالم میں اپنی غزل میں مختلف اصلاحات کو نئے معنی  پہنائے ہیں ۔رومی کی وہ غزل ہے جسے ا نھوں نے جاوید نامے میں من و عن نقل کیا ہے اس کا ایک ا نتہائی مشہور شعر ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس دنیا کے میدان میں ایسے رقص کی آرزو ہے جس میں ایک ہاتھ میں شراب کا پیالہ ہو اور دوسرے ہاتھ میں محبوب کی زلف ہو لیکن یہاں پہ جامِ وبادہ سے مراد طریقت اور زلفِ یار سے مراد شریعت اور رقص سے مراد انسان کی عملی جدو جہد ہے۔اس شعر کے کے جواب میں علامہ اقبال نے جو غزل کہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہتیرو سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست ۔بامن میاکہ مسلکِ شبیرم آرزوست گفتند لب بہ بند و زِ اسرار ِما مگو۔ گفتم کہ خیر نعرہِ تکبیرم آرزوست  (ترجمہ ۔تیرو سنان و خنجر و شمشیر کی آرزوہے اور ہمارا سامنا مت کرنا کہ ہم شبیر کے مسلک کے پیرو کار ہیں۔ انھوں( خدا) نے کہا کہ اپنی زبان بند رکھو ہمارے راز مت فاش کرو ۔ میں (اقبال) نے کہا جو کچھ بھی ہوتا ہے ہونے دو مجھے تو نعرہَ تکبیر کی آررزو ہے)۔ اس طرح علامہ اقبال نے غزل کو بھی عشقِ مجاز کی روائت سے آزاد کر کے اور روحانیت میں ڈوب کر اپنی قلبی کیفیات کے اظہار کا ذریعہ بنا یا ہے۔ حافظ ، نظیری ، عرفی، عراقی اور امیر خسرو کے اسلوب کو ایک نیا رنگ دیا ہے اور مشکل سے مشکل فلسفے کو شعرو موسیقی کا لبادہ پہنا کر اپنی شعری عظمت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔یہ وہ مقام تھا جہاں علامہ اقبال کو اس کا احساس تھا کہ شائد اردو زبان ان کی فکری بلندی اور مضامین کی وسعت کا ساتھ نہ دے سکے اس لئے انھوں نے فارسی زبان کو اختیار کیا اور جب ١٩٣١ میں لنڈن میں اقبال لٹریری سوسائٹی کی طرف سے منعقدہ تقریب میں علامہ اقبال سے پرو فیسر نکلسن نے سوال کیا کہ آپ فارسی میں شعر کیوں کہتے ہیں تو علامہ اقبال نے کہا کہ اشعار کا نزول مجھ پر فارسی زبان میں ہو تا ہے لہذا فارسی میں ہی شعر کہتا ہوں۔
برِ صغیر کی عظیم فارسی روایات کے آخری نما ئندہ کے طور پر علامہ اقبال نے اس چیز سے بے نیازی کا ثبوت فراہم کیا کہ ان کی بات کو برِ صغیر میں کوئی سمجھے یا نہ سمجھے وہ اپنا پیغام بہر طور اپنے انداز میں دنیا کو پہنچا کر رہیں گئے اور یہی چیز ان کی شاعری کو سرحدوںاور تمام جغرافیائی حدودو قیود سے آزاد کر کے دنیائے اسلام میں زبان زدہ خاص و عام کر گئی اور آج ان کا پیغام امت کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔آپ نے فرمایا تھا ۔(خاوران از شعلہ من رو شن است۔اے خنک مردے کہ در عصرِ من است از تب و تابم نصیبِ خود بگیر۔۔ پس زمن ناید چو من مردِ فقیر )پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی زندگی کے آخری  ایام میں ارمغانِ حجاز لکھی تو اُن دنوں وہ مدینے کی راہ میں خود کومحسوس کیا کرتے تھے۔ ان کے ایک ایک شعر سے ان کے عشقِ محمد  صلی علیہ وآلہ وسلم  کے چشمے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ انھیں احساس ہو گیا تھا کہ اب ان کا وقتِ آخر قریب آگیا ہے لہذا وہ اس کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکے تھے۔اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کوایک دفعہ مخاطب کرتے ہو ئے فرمایا کہ مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب اسے موت آتی ہے تو مومن تبسم بر لبِ او است کی مکمل تصویر ہوتا ہے کیونکہ موت اس کیلئے نئے دروازے کھولتی ہے۔ انھیںاس بات کا شدت سے احساس تھا کہ خدا نے انھیں دیدہ وری کی خاص صفت سے سرفراز فرمایا ہے جسے انھوں نے امت کو جگانے میں صرف کیا ہے۔ان کی ایک شعرہ آفاق رباعی جو وقتِ مرگ ان کے لبوں پر تھی اور جو مدینے کو دیکھنے کی آرزئوں کی آئینہ دار ہے ۔۔ (سرودِ رفتہ باز آئد کہ ناید ۔۔نسیمِ از حجاز آئد کے ناید  سر آمد روزگارے ایں فقیرے۔ دگر دانائے راز آئد کہ ناید ) پرو فیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مولانا روم ، فردوسی اور حافظ شیرازی کے خاص اسلوب میں شاعری کی ہے۔ مولا نا روم سے ان کاا یک قلبی تعلق تھا جوجگہ جگہ بکھرا ہوا نظر آتا ہے ۔ مولا نا روم جاوید نامہ میں ان کے پیر و مرشد بن کر آسمانوں کی سیر میں ان کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور زندگی کے مخفی اسرارو رموز سے پردے اٹھا تے چلے جاتے ہیں۔ وہ اقبال پر ایسے حقائق منکشف کرتے ہیں جن سے ا بھی تک وہ نا آشنا تھے۔
جاوید نامہ میں سیرِ افلاک اقبال کی فکر کی انتہا تھی اورا س انتہا میں پیرِ رومی نے جسطرح اقبال کی راہنمائی فرمائی اور انھیں عشق، وجدان اور دانش کے جن بے بہا موتیوں سے مالالا مال کیا وہ اقبالی فلسفے کی صوت میں لازوال ہو چکا ہے۔ آخرمیں ڈاکٹروحیدالزمان نے کہا کہ ہمیں چاہیئے کہ ہم اقبال کی فارسی شاعری کوپڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ صرف ترجمہ پڑھنے سے اسکااصل مفہوم یا مد عا سمجھ میں نہیں آتالہذاہمیں علامہ اقبال جیسے عظیم انسان کے کلام کواپنی زندگی کالازمی جزوبناناچاہیئے جس سے ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونماہو سکتی ہیں ۔۔(ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا )تقریب کے دوسرے دور کا باقاعدہ آغاز مشاعرے سے ہوا تو حا ضر ین نے تمام شعرا کو دل کھول کر داد دی اور ان کی شاعری کو بھر پوردادو تحسین سے نوازا۔مشاعرے میں جس خوبصورت انداز سے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین نے جس بھر پور انداز سے داد دی اس نے مشاعرے کو نیا رمگ عطا کر دیا۔بڑے اعلی معیار کی شاعری پیش کی گئی۔ ایک ایک شعر پر دادو تحسین کا زمزمہ بہہ رہا تھا کیو نکہ تمام سامعین کا تعلق بھی بنیادی طور پر شعرو ادب سے تھا۔ ایسی منفرد اور یاد گار محفلیں بڑی خال خال منعقد ہوتی ہیں جس میں حاضرین شعرو ادب کا اتنا گہرا ذوق رکھتے ہوںاور خوش قسمتی سے قلندرانِ اقبال کی یہ محفل اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں شریک حاضرین اقبال کی محبت میں بھی مستغرق بھی تھے اور شعرو ادب سے خصوصی لگائو بھی رکھتے تھے۔مشاعرے میں پڑھے گئے معروف شعراکے کلام میں سے چندخوبصورت اشعار۔ ۔۔۔قلندراانِ اقبال کی محفلِ شعرو سخن کے شعرا ئے کرام۔۔۔ع س مسلم۔ ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی۔ مصدق لاکھانی ۔ سحتر تاب رومانی۔ سعید پسروری ۔محمد یعقوب عنقا۔ طیب رضا۔طارق حسین بٹ۔فقیر سائیں۔عبد السلام عاصم۔ منظور حسرت۔ سلیمان احمدخان ارسلان طارق بٹ۔حافظ یعقوب۔سلیم ہارون۔تنہا تھا تو توکوئی تماشہ نہیں ہوا۔مت بھول تری بزم میں اس بارمیں بھی ہوں    ( مصدق لکھانی)کسی کی آ نکھ جو نم ہو رہی ہے۔دئے میں روشنی کم ہو رہی ہے    ( سحر تاب رومانی)فریب آنکھ کے حلقے میں آکے بیٹھتاہے ۔ عجب پرندہ ہے پنجرے میں آکے بیٹھتاہے    ( طیب رضا اب بھی آتے ہیں پرندے اس جگہ پر۔ ۔جس جگہ پران کاشجرکاٹاہواہے   (یعقوب عنقا) ایک یہ وقت بھی آجاتاہے۔ وقت انسان کوکھاجاتاہے   ( سعید پسروری)اب بھی میں شام ڈھلے پھول سجابیٹھتاہوں۔۔ اب بھی ہرشام اجڑتاہے گلستاں میری جان   (ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی) سوئی ہوئی تھی بستی ساری کوئی تو جاگے رب کا پیارا ۔ جس کے شانوں پہ رکھ پائیں بستی کا ہم بوجھ یہ سارا    (طارق حسین بٹ)زندگی محبت سے وفا مانگتی ہے۔۔۔کتنی ناداں ہے یہ کیا مانگتی ہے    (ارسلان طارق بٹ)تری نظرمیں ذوقِ تماشہ نہ تھااگر۔توبزمِ گل میں کس کاکہامان کرگیا (،،،،،،)یوم ولادتِ اقبال کی یہ خوبصورت تقریب رات گئے اختتام پزیرہوئی۔ واحدحسن شیخ نے تمام مہمانوں کی آمدپران کا شکریہ اداکیا اور عہد کیا کہ اسطرح کی علمی ادبی محفلوں کا انعقاد آئندہ بھی ہو تا رہے گا تا کہ فکرِ اقبال کو عام کیا جا سکے اور کمیونیٹی کو باہم مل بیٹھنے کے مواقع میسر آسکیں ۔تقریب کے اختتام پر ادب اورکھیل کے میدان میں نمایاں خدمات سر انجام دینے پر معرو ف ادبی شخصیت یعقوب تصور(شاعر) اورکھیل کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پرجنرل سیکریٹری ابوظہبی کرکٹ کلب انعام الحق خان کوسیداظہارحیدرمرحوم اعزازی شیلڈزسے نوازاگیا۔
تقریب کا ا ختتام علامہ اقبال کی شعرہ آفاق نظم خودی کا سرِِ نہاں لاا لہ اللہ پر ہوا ۔ ابو ظبی کے شاعر سلیمان احمد خان اور شیخ عبدالباسط جب اس نظم کو خوبصورت ترنم سے پڑھ رہے تھے اور سارے حاضرین ان کا ساتھ دے رہے تھے تو ماحول  پر عجیب سحر طاری ہو گیا تھا ۔   پرنس اقبال ، چوہدری محمدشکیل،ملک خادم شاہین ۔ رائو محمد طاہر۔ ڈاکٹرامجدحمیدانجم۔ انوارشمسی۔انعام الحق خان۔ عاشق حسین۔  ڈاکٹرمسزثمینہ چوہدری۔ مسز فرخندہ عباسی۔ ،چوہدری محمداشرف لا ہوری۔ محمد شعیب۔ آصف غوری۔ مسز صدف آصف غوری ۔ کاشف محمود۔ سیدشیرازی۔ مظہر ملک۔ا فضال بٹ ۔ عاطف بٹ ۔ محمد اختر ۔سہیل احمد۔عمران اقبال۔ محمد مبشر۔ وقار رانا ۔ شعیب اختر سمیت مردوخواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کر کے اس شام کو یاد گار بنا دیا۔تحریر :  طارق حسین بٹ