جب معاشرہ میں موجود لوگ متضاد رویوں کے حامل ہوں تو ضروری ہے کہ معاشرے کے اہم ستون بھی متضاد رویوں کا وتیرہ اپنائے۔ دو دن پہلے فیصل آباد میں مقیم ایک طالب علم جو کہ چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ اسکول کی ٣ دن چھٹیاں کرنے پر استاد نے والد کو بلا کر لانے کو کہا… بچہ استاد کی سخت گیری اور باپ کے درشت رویوں کا شکار رہا تھا۔ باپ کی مار کے ڈر سے بچے نے خود پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگادی۔ میڈیا نے بریکنگ نیوز چلانی شروع کردی۔ استاد کو ولن کے روپ میں پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی الیکڑانک میڈیا نے کئی مواقع پر استاد کی تذلیل کرتے ہوئے اسے معاشرے کا ولن بنا دیا ہے۔ اسے سخت گیر کے لقب سے نوازا گیا۔ ماحول تھوڑی دیر میں ایسا بنادیا کہ فیصل آباد کے اس بچے کی خودکشی کے بعد ہر فرد کے دل میں استاد کے لیے غم وغصہ پایا جانے لگا… حالاں کہ یہاں استاد کا قصور 10 فیصد بھی نظر نہیں تھا…
آئیے! اسی صوبے کے ایک اور شہر لاہور چلتے ہیں جہاں پنجاب یونیورسٹی کے سیکولر اساتذہ خصوصاً ڈاکٹر منصور سرور کی سرپرستی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن ”اویس عقیل” کو شہید کردیا جاتا ہے۔ طلبہ تنظیم کو ان سیکولر اساتذہ کا خونخوار روپ اچھی طرح معلوم تھا۔ طلبہ سڑکوں پر آئے۔ قاتلوں کی گرفتاری اور ان کے سرپرستوں کے خلاف احتجاج ہوا۔ ڈاکٹر منصور سرور کے دفتر کے باہر گملے توڑے گئے۔ دفتر کے باہر گملے ٹوٹنے پر شور مچایا گیا کہ اساتذہ کے ساتھ بدتمیز ی کی گئی۔ الیکڑانک میڈیا کو اچانک ہوش آیا کہ اسلام پسندوں کو ایک بار پھر ذدوکوب کرنے کا موقع آگیا ہے۔ خود سے مفروضے قائم کیے گئے کہ اساتذہ کے ذریعے جمعیت نے استاد کے مقام کی تذلیل کی۔ وہی میڈیا بیک وقت ایک جانب فیصل آباد میں بچے کی خودکشی کے واقعے میں استاد کو ولن بناکر پیش کر رہا ہے۔ جس میںاستاد کی سخت گیری کی وجہ سے بچے کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور دوسری جانب یہی میڈیا ایک بلاجواز بات کا پتنگڑ بناکر طلبہ تنظیم کے نام سے قوم کوہراساں کرنے کی اپنی سی کو شش میں مصروف تھا۔
islami jamiat talba
اس وقت مجھ سمیت شاید بہت سے طلبہ میڈیا کے اس متضاد رویے کی حقیقت نہیں سمجھ سکے کہ کیا میڈیا صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جسے چاہے، ہیرو بنا دے اور جسے چاہے زیرو بنادے۔ دنیا تیز ہے جیسے چینل پر خود کو افلاطون سمجھنے والے اینکر اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم کو بار بار کسی جج کی طرح مورد الزام ٹہرا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ موصوف گھر سے طے کر کے آگئے تھے کہ جمعیت کو دہشت گرد ثابت کرنا ہے… گمان گزرا کہ شاید وہ جج ہیں۔ جو فیصلہ سنانے لگے ہوں… پروگرام کو جب اپنے خلاف جاتے ہوئے دیکھا تو موضوف اینکر نے پینترا بدلا اور حسن نثار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سب لوگ بخوبی واقف ہیں کہ حسن نثار زمانہ طالب علمی میں جمعیت کا سخت ترین مخالفت رہاہے اور وہ اب بھی جمعیت کے خلاف بغض علی رکھتا ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں اساتذہ کے ساتھ اکھڑ مزاج کے ساتھ بات کرنے والا ”تکریم اساتذہ مہم” چلانے والی اسلام پسند طلبہ تنظیم پر برس رہا تھا… حالانکہ اساتذہ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہیں کی گئی تھی۔ ایک بات یہ سمجھ میں نہیںآتی کہ حسن نثار صاحب اتنے نادان ہیں کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ میڈیا کس طرح ان کو کس طرح استعمال کر تا ہے۔
News Media
صحیح کہا ہے کہ انسان کے دل پر مہر لگ جائے تو اسے ناکچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ سنائی۔ میڈیا کا رویہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے… پہلے جسم کے مضبوط لوگ بدمعاشی کرتے تھے، ابھی آپ دھان پان سے بھی ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں … اگر آپ کا تعلق میڈیا سے ہے تو یقین جانئے آپ حقائق کو توڑ مروڑ کر، پیش کر کے بدمعاشی کر سکتے ہیں اور کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا… میڈیا کا حل یہ ہوچکا ہے کہ کبھی فحاشی وعریانی کے سیلاب کے بند کے ذریعے قوم کی اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا ہے تو کبھی اسلام پسند تنظیموں کو بد نام کرنے کے لیے پر وپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ غالباً ایک سال پہلے اسی پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے پروفیسر افتخار کی ٹھیک ٹھاک پٹائی لگائی۔ واقعے کا پس منظر معلوم کیے بغیر میڈیا نے اس وقت بھی اسلامی جمعیت طلبہ کو آسان ہدف سمجھنے ہوئے بد نام کرنا شروع کردیا۔ بریکنگ نیوز چل رہی تھیں۔ ”ناظرین پنجاب یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ملوث طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے استاد پر تشدد کر کے ان کا بازو توڑ ڈالا۔ انہیں ذدوکوب کیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔” اساتذہ اور نام نہاد معززین سے اس واقعے پر تبصرہ لیا جارہا تھا… جتنا زیادہ جمعیت کے بخیے ادھیڑ ے جا سکتے تھے ادھیڑنے کی کوشش کی… اسے غنڈہ اور آوارہ قسم کے نوجوانوں کی تنظیم بتانے کی ہر ممکن کو شش کی… جمعیت نے واویلا مچایا مگر بے سود… لیکن پھر کیا ہوا؟ ہر خبر پر نظر رکھنے والا چینل جمعیت کے خلاف اس پروپیگنڈے میں پیش پیش تھا مگر ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے اسی چینل پر رپورٹ چلتی ہوئی دیکھی۔ اسکرین پر پروفیسر افتخار کی تصویر… رپورٹ بنانے والا شاعرانہ انداز میں چیخ رہا تھا۔
”ناظرین یہ ہے تو روحانی استاد …لیکن آپ حیران ہوں گے اس معصوم چہرے کے پیچھے گھنائونے چہرے کو دیکھ کر۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کر کے… انہیں فیس میں کمی کا جھانسہ دے کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا… اس کے خلاف شکاتیں تھیں بے شمار… ان کی بیگم بھی پروفیسر کی ان حرکتوں سے تھی تنگ… اور پھر بلا آخر مسلسل شکایتوں پر تحقیقات کے بعد چند نو جوانوں نے کی اس کی پٹائی۔”
یہاں رپورٹر کو اسلامی جمعیت طلبہ کا نام لیتے ہوئے یقینا پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے۔ یہ رپورٹ دیکھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے ہر فرد کا ذہن تو یکسو ہوگیا تھا مگر میڈیا کے خلاف جو غم وغصہ کا رکنوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا ازالہ میڈیا نے نہیں کیا۔ کسی چینل نے جمعیت کے اس اقدام کو نہیں سراہا اور نہ اپنے سابقہ رویے پر کسی اینکر پرسن نے کوئی وضاحت کی اور نہ ہی کوئی معافی کا خواستگار ہوا۔ بلکہ صرف ”طلبہ” کا ذکر کیا گیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ہر فرد باشعور ہے۔ وہ عام عوام کی طرح بھولنے کی بیماری میں مبتلا نہیں۔ جس میڈیا سے اس وقت سیکولر طبقہ بھر پور فائدہ اٹھاکر اسلام پسندوں کو دبانے کی مہم میں مصروف ہے۔ یہی میڈیا اسی طبقے کے لیے ناسور بن جائے گا… میڈیا اسلام پسندوں کو پس پشت ڈال کر ایک خلا چھوڑ رہا ہے اور اب یقینا اس خلا کو پر کرنے کے لیے اسلام پسند میدان میں آئیں گے اور یہ حقیقت ہے کہ جب بھی اسلام کے نام لیوائوں نے کسی چیز میں ہاتھ ڈالا تو پھر طاغوتی قوتوں کو اپنی دھوتی چھوڑ کر بھاگتے ہی بنتی ہے۔ پاکستان میں سیکولر ازم اور سوشلزم پسندوں کو نظریاتی میدان میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ذلت آمیز شکست شاید ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی دونوں نسلیں اب بھی جوان ہیں … سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود ویسے ہی قائم ودائم ہے لیکن اس وقت کی سیکولر، اور سوشلزم نظریات رکھنے والی تنظیموں کا نام بھی لوگ نہیں جانتے۔