قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں جمہوری نظام کو پھلنے کا کم ہی موقعہ ملا شاید یہی وجہ ہے کہ PPP اور PML-N کے قائد ملک و قوم کی زیادہ بہتر طریقے سے خدمت نہیں کر پائے1947 ء سے لے کر اب تک پاکستان میں جمہوری تماشہ صرف دو ہی بڑی پارٹیوں میں کھیلا جا رہا ہے اس کی ایک وجہ تو میں آپ کو بتائے دیتا ہوں وہ یہ کہ دونوں ہی پارٹیاں جاگیر دارانہ بیگ گراؤنڈ رکھتی ہیں اور شاید اسی لئے ایک دوسرے کی حیثیت کو سمجھتے ہوئے ایک ایک دفعہ ملک کو نوچ رہی ہیں اور بڑے ہی ظالمانہ اداز میں ملک کو کھوکھلا کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
نون لیگ کو دو ہی دفعہ اس ملک و قوم کے پر خچے اڑانے کا موقعہ دیا گیا اور آج بھی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف ایک اور بار ی کے انتظار میں ہیں اور دوسری طرف پیپلزپارٹی نون لیگ سے آگے ہے اور چار دفعہ اقدار میں آ چکی ہے یہ دونوں ہی پارٹیاں جمہوریت کی دعوے دار بنی ہوئی ہیں اور عوام کو صرف ایک ووٹ کا حق دے کر تماشا دیکھ رہی ہیں پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پی پی پی نے اپنی جمہوریت کے پانچ سال مکمل کئے ہیں۔
مگر اسے مزید پی پی پی کی جمہوریت کی کامیابی نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ پانچ سالہ جمہوری تماشا جو پی پی پی نے کھیلا ہے اس کا سارا کریڈٹ صرف اور صرف صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے کیونکہ صدر صاحب ہر پارٹی کیخ بھاؤ جانتے تھے کہ کون کتنے میں بکے گا اور کون کتنے میں …. اسی لئے انہوں نے کبھی ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملایا اور کبھی ق لیگ کو کچھ وزارتوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملائے رکھا اور مسلسل پانچ سال جمہوری حکومت کا صدر رہنے کا تاج اپنے سر پر پہن لیا مگرآج آگر آ پ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے کارنامے دیکھیں تو شاید آپ کو اس بات پر سر زمین پر مارنے کو دل کرے کہ اگر ایسا حال جمہوریت میں ہوتا ہے تو ڈکٹیٹر شپ کس بلا کا نام ہے مگر یہاں میں آپ کو ایک حقیقت بتاتا چلوں کہ جتنی ترقی اور خوشحالی ڈکٹیٹرز کے دور میں پاکستان کے حصے میں آئی جمہوریت کے دور میں پاکستان کے پاس تک نہیں پھڑ کی اگر یقین نا آئے تو آپ صدر آصف علی زرداری کے دورے حکومت اور پرویز مشرف کے دور کا موازنہ کر کے دیکھ لیں کیونکہ اس جمہوریت نے ہم عوام کو حصول روز گار کے چکر میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ ہمیں نہ ملک کی فکر ہے نہ انے والی نسل کی کہیں لوڈشیڈنگ نے ہمیں نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اور کہیں دو وقت کی بھوک مٹانے کے لئے ہم لاچار نظر آتے ہیں بہر حال یہ موازنہ بھی میں ہی آپ کو کئے دیتا ہوں اور پاکستان کی جمہوری حکومت کے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں کارنامے بھی آپ کے گوش گزار کر دیتا ہوں۔
Musharraf
ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں صرف بیس فیصد اضافے سے تین لاکھ پچاس ہزار پاکستانی خطو غربت نیچے گر کر انتہائی غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے آٹا جو مشرف کے دور حکومت میں سولہ روپے کلو ملتا تھا جمہوریت کے فضل و کرم سے33 روپے فی کلو سے تجاوز کر گیا ہے اسی طرح دالیں ساٹھ فیصد ،گوشت سو فیصد ، چینی 124 فیصد دودھ اسی فیصد اور پتی نوے فیصد مہنگی ہو ئی ہے اور پٹرول جس پر ملکی معیشت کا انحصار ہوتا ہے اس کی قیمت بھی اس جمہوری دور میں ڈبل سے ٹرپل ہوتی نظر آ رہی ہے مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو تقریباً ایک سو پچاس فیصد اضافے کا تخمینہ اس جمہوری دور نے ہمیں دیا ہے مشرف دور میں جہاں دس ہزار شہری ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے گزار رہے تھے اب اس جمہوری دورکی برکتوں ے 25000 لوگ روزانہ غربت کی بھٹی میں گزار رہے ہیں۔
اگر ترقیاتی کاموں پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو پورے پانچ سالہ جمہوری دور میں ایک بھی بڑا پروجیکٹ مکمل ہوا نہیں ملے گا اور میرے خیال سے شاید شروع ہوا بھی نہ ملے اور آخر میں اگر ملکی قرضے کی بات کی جائے تو وہ بھی اس جمہوری دور میں دوگنا ہو کر بارہ ٹریلین سے تجاوز کر گیا مگر کیا ہے کہ جمہوریت کار اگ الاپنے والے اس میں ہی خوش ہیں کہ ملک میں جمہوریت تو ہے چاہے نام ہی کی سہی اور ان کے بنک بیلنس تو مسلسل بھرے جا رہے ہیں نا اس جمہوریت نے پاکستانی عوام کو اتنا ڈسا ہے کہ یہ عوام ڈکٹیٹر شپ کو بہتر خیال کریں گے ۔میں بذات خود جمہوریت کے قتعاً خلاف نہیں ہوں مگر اس طرح کی جمہوریت جس میں انسان کو انسانی ہی نے سمجھا جائے صرف ایک ووٹ کا حق دے کر پانچ سال تک اس کا خون چوسا جائے سرمایہ دار اور جاگیردار اس ملک کے حکمران ہوں اور جہاں عوام کے پیسے کو حکمران اپنا مال سمجھ لیں اور ایک عام آدمی پانچ سال جمہوریت کی ایسی چکی میں پستا رہے جہاں نہ تو وہ خود دو وقت کی روٹی کھا سکے اور نہ اپنے خاندان کے لئے اس کا انتظام کر سکے میں ایسی جمہوریت کے سخت خلاف ہوں ایسی جمہوریت میں اگر غریب کا بچہ بیمار ہو جائے اور صرف موت اس کی بیماری کا علاج ہو۔
میں ایسی جمہوریت سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ایسی جمہوریت جہاں تعلیم کی ساری سہولتیں صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بچوں کے لئے ہوں اور غریت کا بچہ علم کے نور سے اپنا مستقبل نہ سنوار سکے میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھجنا پسند کروں گا ایسی جمہوریت جہاں صرف امیروں اور جاگیرداروں چور اور لیٹروں کو جینے کا حق ہو اور غریب کے خون کی کوئی قدر نہ ہو اور اسے پانی کی طرح بہا کر چند روپیوں کے عوض خرید لیا جائے میں ایسی جمہوریت کی مخالفت کرتا ہوں اگر ہم حقیقی معنوں میں جمہوریت چاہتے ہیں تو ہمیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد ہونا پڑے گا اور خاندانی جمہوری تماشے کو ختم کرنا پڑے گا۔