یہ بات درست ہے کہ ہمارے حکمران بہت اچھے نہیں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں یا نہیں؟جب ہم کسی امیدرار کوصرف اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ممبر اسمبلی بن کر ہمارے جائز ناجائزکاموں کو سپورٹ کرئے گا اور قانون کی گرفت سے بچائے گا تو پھر اگر وہ حلقے کے ترقیاتی کام نہیںکرواتا یا ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا توہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کے ہم اسے برا بھلا کہیں۔کیونکہ ان کاموں کی اہلیت تو ہم نے اس میں ووٹ دینے سے پہلے دیکھی ہی نہیں تھی ۔جب ہم نااہل لوگوں کو منتخب کر کے اسمبلی بھیجتے ہیں توپھر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ صرف حکمران ہی نااہل نہیں بلکہ عوام بھی (ڈیش ڈیش ہے)۔
حکمران کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔اس لیے صرف حکمرانوں کو بد عنوان اور کرپٹ کہنے یا ثابت کرنے سے عوام کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوتی بلکہ ایسے حالات میں عوام کی ذمہ داریاں اور بھی بڑجاتی ہیںلیکن بد قسمتی سے پچھلے 65 سال سے پاکستانی عوام نے ہر حکمران کو غلط کہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ جن حکمرانوں کو پاکستانی عوام غلط کہتے ہیںوہی لوگ بار بار الیکشن جیت کر پاکستان پر حکومت کرتے ہیں ۔عوام جن کو غلط کہتے ہیں ووٹ بھی انھیں کو ہی دیتے ہیں ۔جب منتخب کرنے والوں کے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو پھر کیسے ان کے منتخب کیے ہوئے لوگ سچے اور ایماندار ہوسکتے ہیں ۔ اور پھرکسی ملک یا کسی ریاست کو چلانے کے لیے صرف حکمران ہی توکاقی نہیں ہوتے بلکہ عوام پر بھی حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں کرڑوں لوگوں پر چند حکمران تب ہی کامیابی سے حکومت کر سکتے ہیں۔
جب وہ عوام کے صحیح ترجمان ہوں اورجہاں جمہوریت ہو وہاں صحیح ترجمان تلاش کرنا عوام ہی کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ پاکستان کے عوام اگرچہ اپنے ہی منتخب کئے حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں لیکن برا سمجھنے کے باوجودمیری قوم کا حال یہ ہے کہ اپنی جیب میں انھیں برے حکمرانوں کے وزٹینگ کارڈ رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاص طور پر سیاسی ورکر ان کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے ہووہ اپنے آپکو خدا کی اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں ۔جس کے پاس کسی mpa کارڈ ہووہ اپنے آپکوہی mpa سمجھتا ہے اوراس حساب سے اگرکسی کے پاس mna کا کارڈہوتووہ بھی خود کوہیmna سمجھتا ہے۔
میرے ہم وطن جن حکمرانوں کوان کے دور حکومت میں بہت برا سمجھتے ہیں الیکشن کے دنوں میں انھیں کے نعرے لگاتے نظرآتے ہیںجن کو، کرپٹ ،چورلٹیرے اور غدارکہا ہوتا ہے الیکشن کے دنوں میں انہی لوگوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی بیٹھک کی دیواروں پربڑے بڑے فریموں میں بڑے ہی فخر سے آوزاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس شخص کوبڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے جوچوروں ،ڈاکوں ،منشیات فروشوں ،کی پشت پناہی کرے اور جورشوت خوروں کو اچھی طرح ڈیل کرسکے اور جس کی برادری بڑی ہو ۔اس طرح بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کرپٹ سیاست دان ا لیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔جس برادری کا ایک فرد mpa یاmna بن جاتا وہ ساری برادری اپنی گاڑیوں پرmpaاورmnaلکھی نمبرپلیٹ لگاکراختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ان حالات میں ہر خاص وعام کی دلی خواہش ہے کے وہ کسی نہ کسی طرح سرکاری عہدے پر فائز ہوجاے تاکہ وہ اپنے آپ میں سرکار ہوجاے ۔
اقتدار کی بھوک ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ قوم کا ہر فرداپنے آپکوراتوںرات بغیر محنت کئے بڑھا آدمی بننا چاہتا ہے ہماری چھوٹی سی ننھی سی تمنایہ ہوتی ہے کہ ہم کم ازکم ملک کا، صدر،وزیراعظم،وزیراعلیٰ،یا پھر کم ازکم کوئی نا کوئی وزیربن سکیں ۔ اور یہ سارے عہدے ہم ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا قد بڑا کرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جس قوم کاہر فرد صرف اپنے لیے ہی سوچتا ہو اس کے حکمران کس طرح ملک و قوم سے مخلص ہوسکتے ہیں : جاری ہے