”پروٹوکولز” ایک ایسی مقبولِ عام دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا۔ بظاہر دیکھنے میں یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے۔ اس کتاب میں وسیع تر اسرائیل کا جو پلان بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صیہونیت بہت جلد پوری دُنیا پر چھا جائے گی اور یہودیوں کا معیشت، سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی پر مکمل کنٹرول ہوگا۔ پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد چالیس سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ اُردو سمیت دُنیا کی مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار مصباح الاسلام فاروقی نے ”جی وِش کنسپائریسی” کے نام سے پروٹوکولز کا انگریزی ترجمہ کیا جبکہ ”یہودی پروٹوکولز” کے نام سے اُردو ترجمے کی سعادت محمد یحییٰ خان کے حصے میں آئی۔
یہ صیہونی پروٹوکولز متعدد اعلیٰ پائے کے یہودی تاریخ دان نہ صرف جھٹلا چکے ہیں بلکہ یہودی اسکے نسخے خرید کر تلف بھی کرتے رہے ہیں۔ یہودی تاریخ دانوں کے مطابق پروٹوکولز مکمل طور پر ایک من گھڑت کہانی ہے جسے اِس ارادے کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ یہودیوں کو کئی برائیوں کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جا سکے لیکن موجودہ حالات سو فیصد ان کی موجودگی کا اقرار کرتے ہیں جو آج سے ایک صدی پہلے لکھے گئے۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فرنگ کی رگ و جاں پنجہ یہود میں ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دُنیا میں موجودہ غربت، بے روزگاری، نفسانفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی موجودگی کی اصل وجہ بھی معلوم ہو جائے گی۔ ”پروٹوکولز” کے بارہویں باب میں میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذریعے برین واشنگ یا ذہنی دھلائی کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا پلان بھی شامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودی اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر کنٹرول بارے اس کتاب میں جو پروٹوکولز شامل ہیں اُن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہم یہودیوں کیلئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریںجن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔”
عالمی ذرائع ابلاغ خاص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اسکے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد، دہشت پسند اور اسلام کو ناقابلِ عمل دین باور کراتا ہے ۔ مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے کبھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری کئے جاتے ہیں تو کبھی ”مسلمانوں کی معصومیت” کے عنوان سے طنزیہ فلمیں بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے سوشل میڈیا کو بھی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مخالف اسلامی میڈیا اتنا طاقتور نہیں کہ اپنے خلاف ہونیوالے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دے سکے۔
ایسی پریشان کن صورتحال سے بے چین ہو کر دین کا درد رکھنے والا ہر مسلمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ علمائے کرام ٹی وی پروگراموں میں آ کر اسلام کیخلاف اُٹھنے والے ہر فتنہ کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کریں بلکہ عوام کو اصل حقائق سے بھی آگاہ کریں مگر افسوس کہ بدقسمتی سے دینِ اسلام کے محافظ علمائے کرام اب تک سوچوں میں گم ہیں۔ علمائے کرام کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تصویر بنانا اور بنوانا دونوں حرام ہیں۔ چونکہ ٹی وی میں تصویر ہوتی ہے اس لئے ٹی وی پروگرام کرنا اور دیکھنا دونوں ناجائز ہیں۔ دوسرا طبقہ جو تصویر بنانے اور بنوانے کو ناجائز نہیں سمجھتا مگر اسلام مخالف حساس اور سنگین معاملات سے خود کو قدرے دور ضرور رکھتا ہے جبکہ علماء کا تیسرا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ حدود آرڈیننس، توہین رسالتۖ قانون اور اسلام مخالف مغربی پروپیگنڈے جیسے نازک حالات میں اپنے مؤقف کی صحیح وضاحت اور پروپیگنڈے کے خاتمے کیلئے ٹی وی پر اضطراری طور پر بدرجہ مجبوری آیا جا سکتا ہے۔ ایسے علماء میں سے کچھ ذاتی حیثیت میں ٹی وی پر جلوہ افروز ضرور ہوتے ہیں مگر اکثریتی علمائے حق کی اس دوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ٹی وی چینلوں کے ذریعے کئی ایسے خود ساختہ عالم دین اور مذہبی اسکالر متعارف ہو چکے ہیں جو اپنی مرضی کے ”رنگین اسلام” کو فروغ دینے میں کوشاں رہتے ہیں۔
بہت سی این جی اوز اور شخصیات جو حدود آرڈیننس اور توہین رسالتۖ جیسے قوانین کے خاتمے کیلئے سرگرم ہیں وہ بھی ان قوانین سے منسلک کئی حساس ایشوز پر ایسے ہی جاہل خود ساختہ مذہبی اسکالرز کی رائے کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں۔ اب بھی ٹی وی چینلوں پر ایسے خود ساختہ مذہبی اسکالرز اور جاہل ماڈرن مولویوں کے ذریعے اخلاقیات، سماجی تعلقات، روشن خیالی، ذہنی کشادگی اور سوچ پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔ ٹی وی پر بحث و مباحثہ کے پروگراموں میں جو تماشا لگتا ہے اس تماشہ گاہ میں بقولِ نامور سینئر کالم نگار”اوریا مقبول جان” تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بنانے کیلئے سادہ لوح علماء کو بُلایا جاتا ہے پھر اُن کے منہ میں ایسے فقرے ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں ان تمام ظالمانہ اور جاہلانہ رسوم کو اسلام اور مولوی کے کھاتے میں ڈال کر بدنامی کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک مقبول ٹی وی چینل پر نشر ہونیوالے مذہبی پروگرام میںقبولِ اسلام کا جاہلانہ ڈرامہ رچایا گیا۔ پروگرام کے ہوسٹ لائیو ٹیلیفون کال پر ایک غیر مسلم خاتون کو مسلمان کر رہے تھے۔ کمال بات یہ ہے کہ موصوف اس بات سے بھی ناواقف نکلے کہ غیر مسلم کو کونسا کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا جاتا ہے جبکہ جو معروف کلمہ پڑھایا گیا وہ جناب موصوف تو خود بھی صحیح طرح سے نہیں پڑ سکتے تھے اور اس کلمہ طیبہ کا جو ترجمہ فرما رہے تھے وہ بھی اپنی جگہ ایک شاہکار ہے کہ جو نہ کسی نے آج تک کیا نہ کسی نے سُنا ہوگا جبکہ جس خاتون کو وہ مسلمان کرنے کی ”سعادت” حاصل کر رہے تھے وہ زیادہ بہتر طریقے سے کلمہ پڑھ رہی تھی۔
اسی طرح ایک اور لائیو ٹیلی ویژن شو میں ایک ہندو نوجوان کو اسلام قبول کرتے دکھایا گیا۔ جیسے ہی ہندو نوجوان نے ایک امام کے ذریعہ اسلام قبول کیا تو اس پر نہ صرف بھرپور خوشیاں منائی گئیں بلکہ جس انداز سے مبارکباد کے پیغام آنے شروع ہوئے اُس سے یہی تاثر اُبھرتا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو کہ اسلام کو ہے۔ ایسی صورتحال سے فائدہ وہ این جی اوز اور شخصیات اُٹھاتی ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کے نام پر واویلا کرکے حدود آرڈیننس اور توہین رسالتۖ جیسے قوانین کے خاتمے کیلئے سرگرم ہیں۔ توہین رسالت کی سزا بطورِ حد سزائے موت، کتاب و سنت اور سنت خلفائے راشدین و ائمہ مطہرین، اجتہاد ائمہ فقہ اور علمائے اُمت کی متفقہ رائے کی رو سے ثابت ہے مگر بعض لوگ جان بوجھ کر توہین رسالت قانون کا بے جا استعمال کرتے ہیں تاکہ اس قانون کو بے وقعت کر دیا جائے کیونکہ اس قانون نے کئی ایک سرکش لوگوں کو شتربے مہار بننے سے روک رکھا ہے۔دینی و دنیاوی معاملات میں منافقت برتنے والے کسی آئین اور قرارداد کے محتاج نہیں ہوتے لیکن ان قوانین سے منافقین کا کام آسان ضرور ہو گیا ہے۔
Quaid e Azam
اسلام دشمن این جی اوز اور شخصیات اپنے بیانات میں توہین رسالت کے قانون کو فکر قائداعظم کے منافی قرار دیتی ہیں۔ ان نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال افراد کے نزدیک ”سیکولرازم” کا جو مفہوم ہے، قائداعظم محمد علی جناح کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ آج یہ فتنہ پرداز محسن انسانیتۖ کی ناموس کے تحفظ پر مبنی قانون کو ”فتنہ” قرار دیتے ہوئے نہیں جھجکتے جبکہ قائداعظم اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے شاتم رسولۖ راج پال کے قتل کیس میں غازی علم الدین کی طرف سے اس کے مقدمہ کی پیروی کرنے کیلئے بمبئی سے لاہور تشریف لائے تھے۔ قائداعظم کا اصول یہ تھا کہ وہ کسی غلط مقدمہ کو لینے سے انکار کر دیتے تھے مگر انہوں نے غازی علم الدین کا مقدمہ لینے کی حامی بھری۔ لاہور میں شاتم رسول راج پال کو قتل کرنے والے غازی علم الدین اور کراچی میں شاتم رسولۖ ناتھو رام کو واصل جہنم کرنے والے غازی عبدالقیوم کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بھی اپنی مایہ ناز تصنیف ضرب کلیم میں خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔
مسلمان نما اسلام دشمنوں کے فریب و دجل کا یہ بھی اندازہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس پر مبنی اسلام سے متصادم نظریات کو ”عین اسلام” بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ ناواقف عوام کو بے وقوف بنایا جائے اور اسلامی معاشرے میں اسلام کی کھلی مخالفت کے نتیجے میں درپیش آنے والے خطرات سے خود کو محفوظ کیا جا سکے۔ ایسے لوگ اپنی مسلمانیت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کا ہر قول و فعل اسلام کی مخالفت پر مبنی ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب مغرب کے اشاروں پر چلنے والی این جی اوز ایسے مواقع پیدا کرکے مغرب سے ہی لاکھوں ڈالر وصول کرتی ہیں۔ بڑے دجال کی آمد سے قبل ہی اسلام کے خلاف کئی چھوٹے دجال متحرک ہو چکے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو جتنا بھی دبایا گیا اتنا ہی پھیلتا گیا۔ یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔ یہودی سچے دین اسلام کا راستہ روکنے کیلئے عیسائیوں سے ملکر پوری دنیا کے نیوز میڈیا کوجیوش نیوز (Jewish News) بنانے میں مصروف ہیں لیکن مستقبل انشاء اللہ عدل و انصاف کے لازوال عالمی نظام ”اسلام” کا ہی ہے۔