نام نہاد لبرل جو مسلمانون کے چولے میں یہودیت اور نصرانیت کے پروردہ ہیں،یہ لوگ ظالم و مظلوم کی تمیز سے نا بلد ہیں۔ بے حجابی اور اسلامی شعائر سے دشمنی ان کی پیڑیوں میں رسی بسی ہے۔ان لوگوں کو اسلام اس پر جاں نثاری کرنے والوں سے ازلی دشمنی ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تو کسی اسلامی گروپ کی علمبردار بھی نہ تھی، مگر چونکہ وہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود صوم صلواة کی پابند تھی اور حجاب پہنتی تھی اسلئے یہ نصیبوں جلے اُ س مظلوم خاتون کے مخالف ہیں۔میں حامد میر کا اس ضمن میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یاسر پیر زادہ جیسے لبرل اور فاشسٹ ذہنیت کے نام نہاد لکھاری کاعافیہ صدیقی جیسی معصو م اور مظلوم خاتوںپر اتہام طرازی کا پردہ چاک کر کے جھوٹے کو اس کی آخری حد تک پہچا دیا۔
ایف بی آئی کی ایک ویب سائڈ کے مطابق افیہ صدیقی کو 2003میں امریکہ کے خلاف کام کرنے کے الزام میں صرف پوچھ گچھ کے لئے گرفتار کیا گیاتھا،جس کا کراچی پولس بھی اعتراف کر چکی ہے کہ عافیہ صدیقی کو اُ ن کے سابقہ شوہرامجد خان کی جھوٹی اطلاع پر پولس نے پکڑ کر خفیہ ادارے کے حوالے کر دیا تھا۔جب خفیہ ادارے نے ڈاکٹر عافیہ کو غائب کر دیا تو ۔2003میں عمران خان نے سب سے پہلے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹالک میںڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا پر بھر پور احتجاج کیا تھا۔جس کی تصدیق اُس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیا ت نے غیر منصفانہ الفاظ میں کی تھی ۔پانچ سال ہمارے معصوم خفیہ ادرے نے عافیہ کے ساتھ مسلسل ظالمانہ انداز میں تحقیقات کیں جب ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو بھگوڑے جنرل اور غاصب مقتدر نے اپنے آقائوں سے ڈالر کے عوض پاکستان کی بیٹی کو ان کے بھیڑیوں کے نرغے میں دیدیا،جنکی بہادری کا یہ عالم ہے کہ پچاس ممالک کا عظیم الشان لشکر جو دنیا کے ہر جدید ہتھیار وں سے مسلح تھالیکر اکیلے اسامہ بن لادن کو پکڑنے آئے تھے اور دس گیارہ سال منہ کالا کرنے کے باوجود اسامہ بن لادن کو پکڑ کر دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے۔ ہمارے نام نہاد کمانڈونے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے بے غیرتی دکھانے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔لہذا ایجنسیوں نے عافیہ صدیقی کو واپس افغانستان بھیج دیا اپنے منہ کی کالک چھپانے کی زبردست کوشش کی ۔
عافیہ صدیقی پر افغانستان کی بگرام جیل میںانسانی حقوق کے چیمپئنوں نے وہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جن کا سن کر انسانیت بھی لرزہ بر اندام ہو جاتی ہے۔ جب ان انسانی حقوق کے چمپیئنوں کے ہاتھ کچھ نہ لگا تو مشرف کے آخری ایام میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوواپس پاکستان کی حکومت کے حولے کردیا گیا۔اب عافیہ صدیقی اور اس کے خاندان کے لوگوں کو طرح طرح کی دھمکیاں موصول ہورہی تھیں۔اس دوران اگر عافیہ کو پابند سلاسل نہ رکھا جاتا تو وہ مشرف اور اس کی حکومت کا بھانڈا وہ میڈیا پر آکر پھوڑ دیتی اورپھر یہ اپنا مصنوعی چہرہ کسی کو دکھانے کے قابل نہ رہتا۔لہذا ایجنسیوں نے عافیہ صدیقی کو واپس افغانستان بھیج دیا۔جہاں ڈاکٹر عافیہ کو بگرام جیل کے ایک ڈبہ نماکمرے میں جو غالباََ سات بائی سات فٹ کا تھا میں رکھا گیا ۔
جہاں عافیہ پر خاد کے درندے سی آئی اے کے درندوں کے ساتھ مل کر مسلسل ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ جس کی رپورٹنگ 2010کے ابتدائی مہینوں میں طالبان کی قید سے رہائی پانے والی ایک مغربی خاتون صحافی ایان ریڈلے نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔ افغانستان کے بگرام ایئر بیس کے عقوبت خانے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا،کہ وہ قید خانے کا دورہ کر رہی تھی کہ اُس نے بہت سے قیدیوں کو دیکھا اور ان کے کمروں کا بھی معائنہ کیاایک ڈبہ نماں کمرہ ایسا تھا کہ جومکمل بند تھا مگر اس کمرے سے کسی قیدی خاتون کے چیخوں کی دلدوز آوازیں آرہی تھیںجو یقیناََ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی کی تھیں۔اس خبر کے بعد اب افغان حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں ایک نیا ڈرامہ کھیلنا شروع کیا ۔
ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق36سالہ عافیہ صدیقی کو17 جولائی 2008گورنر غزنی کی رہائش گاہ کے احاطے میں افغان پولس نے مشتبہ حالت میں گرفتا رکیا کر لیا۔ اس کمزور سی تین بچوں کی ماں،منحنی خاتوں کے قبضے سے شیشے کی بوتلیں ،خطر ناک کیمیکل سے بھرے مرتبان،ملے اور بم بنابے کی ترکیبیں اور کچھ دستاویز برآمد ہوئیںجس میں نیو یارک سمیت امریکہ کے اہم شہروں اور تنصیبات کے نقشے بھی برآمدہوے ۔اس کے بعد ایک نیااَن ہونا ڈرامہ امریکیوں نے بنایا کہ عافیہ نے ایک مسٹنڈے امریکی سے بھاری بھرکم گن چھین کر اُس پر فائر کیاوہ مسٹنڈہ امریکی سپاہی تو بچ گیامگر گولی واپس آکر عافیہ کو زخمی کر گئی۔
اس کے بعد امریکیوں نے عافیہ پر مقدمہ چلایا مگر اُسے وکیل کرنے کا اجازت نہ دی گئی۔ پیرزادہ لکھتا ہے کہ وکیلِ صفائی اور عدالتی وکلا ء نے ہر ممکن دلائیل دئیے مگر ثبوت میں کوئی دلائل پیش نہ کر سکے۔جیسے موصوف عدالتی کاروائی کے دوران عدالت کے کمرے میں موجود تھے… اور پھر ان کے دل کی مراد بر آئی اور نیو یارک کی عدالت نے ستمبر 2010کوایک امریکی مسٹنڈے سپاہی پر گولی چلانے کے جرم میں غضب خدا کا86سال کی غیر منصفانہ سزاسنادی گئی۔حالانکہ عافیہ کے خلاف جراح کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آچکی تھی کہ کوئی ایک الزام بھی ان کے مخالف وکیل ثابت نہ کر سکے تھے ۔مگر فیصلہ یہودیوں کے ایماء پر دلائل کے بر عکس آیا۔اتنی لمبی سزا تو کئی کئی قتل کرنے والوں کو بھی نہیں دی جاتی ہے۔یہ ہے وہ معاشرہ جس کی تعریف میںہزاروں پیروں کی اولادیں رطب اللسان رہتی ہیں۔
ایک پیر زادہ پاکستان کا سابق وزیر اعظم بھی تھا جس کی ایماندری آج نیب میں بھی ثابت ہو رہی ہے اورہزاروں ان جیسے لوگ اس کی پارسائی کی قسمیں کھا رہے ہونگے۔ پیرزادہ کہتے ہیں کہ اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ عافیہ کوپاکستانی ایجنسیوں نے اُٹھایا اور تحویل میں رکھا۔کیا وہ سینکڑوں بلوچوں اور دیگر پاکستانی جنہیں ہماری ایجنسیوں نے پکڑا اور مار کر پھنیک دیا یا غائب کیا ہوا ہے عدالتوں کے بار بار کے اسرار کے باوجود ان کا سراغ دیا جا رہا ہے؟؟؟اور اُنہیں عدالتوں میں پیش کیاجارہاہے؟؟؟ اب آتے ہیں ملالہ اورڈاکٹرعافیہ کی طرف کہ کون پاکستان کی بیٹی ہے۔پہلے میں یہ واضح کردون کہ میں بے گناہوں پر ہتھیار اٹھانے والوں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنیوالوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔مگر اسلام کی سر بلندی کے لئے کا م کرنیولوں کو سلیوٹ کرتا ہوں۔
Malala
ملالہ تعلیم کے حصول کی اگر بات کر رہی تھی اس گناہ پر اگر کسی نے اُس پر گولی چلائی تو وہ بھی گردن زدنی ہے….مگر جب ہم کہتے ہیں کہ ملالہ پا کستاکا سر فخر سے بلند کرنے کی دلیل ہے تو ہم بھول جاتے ہیں کہ عافیہ اسلام اور پاکستان کے سر کا تاج ہے۔کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کے آئدیل سرور کائنات رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں۔
جبکہ ملالہ کا آئڈیل کالالاکھوں مسلمانوں کا قاتل اوبامہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ ایک مظلوم اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ہیروہے جبکہ ملالہ یہودیت نصرانیت اور میڈیا کی کی ہیرو ہے،جسے امریکی ایجنڈے کے لئے استعمال کیا گیا۔عافیہ نے جہد مسلسل کے نام پر ایک جہادی خاتون ہونے کے الزام میں 86سال کی سزاغیر منصفانہ ،اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ہاتھوں پائی۔ملالہ نے جہاد کی مخالفت کے نام پر نام پایاقور اسلام کی مخالف پر دنیا کی ہیروئن قرار پائی۔جبکہ ڈاکٹر عافیہ مسلمان سائنٹسٹ ہونے پردہشت گرد کہلائی ۔ملالہ نے سورہ نسائ،اور حدیث نبوی کی مخالفت کرتے ہوے حجاب اور داڑھی کی مخالفت کی اور امن کی فاختہ کہلائی۔جس پر اس کے باپ کا کہنا ہے کہ ملالہ نے اپنے خون سے تہذیب اور وحشی پن (گویا اسلامی شعائروحشی پن ہے)کے درمیان لکیر کھیچ دی ہے۔
مغربی دنیا ملالہ کو پروجیکٹ محض ایک نقطے پر کر رہی ہے ،وہ ہے اسلامی شعائر کی مخالفت ہے۔اگر ملالہ یہویوں اور نصرانیوںکی منظور نظر ہوکر بھی پاکستان کی بیٹی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔مگرڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام کاسِمبل ہوکر پاکستان کی بیٹی کیوں نہیں ہے؟؟؟پاکستان کی بیٹی کو ظلم کی چکی میں پسوانے والے بد معاش مشرف کی طرح مغرب کی کاشت کردہ تعلیم کی دیوی ملالہ بھی اُسی کی طرح مغرب کی پناہ میں ہے ۔پاکستان کے غیرت مند مسلمان خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کی حقیقی اور عظیم بیٹی کون ڈاکٹر عافیہ یا ملالہ یوصف زئی؟؟؟۔