مصر (جیوڈیسک) مصر کے پراسیکوٹر جنرل نے احتجاجی تحریک میں ہلاکتوں کے معاملے پر حسنی مبارک اور ان کے متعدد سینئر حکام کے مقدمے کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔ احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سابق مضبوط شخص کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ استغاثہ نے دو جون کو سنائے جانیوالے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے اور نیا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ کن بنیادوں پر اپیل دائر کی گئی ہے۔ پراسیکوٹر جنرل عبدالمیگوئید محمود نے مبارک اور سابق وزیر داخلہ حبیب العدلے کو عمر قید اور چھ سینئر پولیس حکام بری کیے جانے کے ایک روز بعد کہا تھا کہ وہ اپیل دائر کریں گے۔
پولیس حکام کے خلاف فیصلے سے احتجاجی مظاہروں کی ایک لہر شروع ہو گئی تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بہت معمولی سزائیں ہیں۔ جج احمد رفات نے مبارک اور عدلے کو انقلاب کے دوران 800 سے زائد احتجاجی مظاہرین کی ہلاکت میں ان کے کردار پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ گزشتہ سال فروری میں انقلاب کے دوران انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا تاہم جو لوگ اصل میں قتل عام میں ملوث تھے انہیں کوئی سزائیں نہیں سنائی جاسکی ہیں۔
مبارک کے بیٹوں اور علا اور گیمال کے خلاف بدعنوانی کے الزامات بھی ختم کردیئے گئے تھے کیونکہ ان کی مدت ختم ہو چکی تھی اور سابق صدر کو کرپشن کے ایک کیس سے بھی بری کیا جاچکا ہے تاہم علا اور گیمال ایک اور مقدمے کی وجہ سے ابھی تک حراست میں ہیں۔ اس وقت مبارک کی دفاعی ٹیم کے ایک سینئر رکن نے 84 سالہ رہنما خود فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔