یہ حقیقت ہے کہ عورت، عورت ہی ہوتی ہے یہ چاہے کسی بھی عہدے پر ہی کیوں نہ فائز ہو یہ اپنی شک والی خصلت سے مجبور ہوتی ہے جِسے یہ بدلنا بھی چاہئے تو بحیثیت عورت ہونے کے یہ اسے بدل نہیں سکتی ہے ہاں اگرعورت سمجھدار اور حقیقت پسندہو اور رکھ رکھاو والی ہو تو ٹھیک اور اگر ترش مزاج ہو تو ایک گھر، ایک محلہ،ایک شہر اور ایک ملک بھی جہنم بنادینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھورٹی چاہئے یہ کسی بھی اعلی عہدے پر ہی کیوں نہ ہو یہ اپنے شک اور خودسری کی وجہ سے خود کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ جس سے بسااوقات یہ خود بھی واقف نہیں ہوتی ہے کہ اِس کے اِس مزاج کی وجہ سے دنیا اور اِس کے معاشرے کے لوگ اِسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
جان ہیووڈ کا کہناہے کہ ترش مزاج عورت کسی کو خاطر میں نہیں لاتی ہیاور اِس کی یہ ترش مزاجی ہی اِسے سوسائٹی میں عورت کا ایک ایسا روپ بناکر پیش کرتی ہے کہ جس سے معاشرے میں دو مختلف اقسام کی عورتیں سامنے آتیں ہیں جن میں عورت کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو انتہائی نرم گو ہے اور دوسری عورت کی قسم ایسی ہوتی ہے جو انتہائی ترش مزاج ہے مگر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ دنیاکے ہرزمانے اور معاشرے میں ایسی عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم رہی ہے جو ترش مزاج گزرہی ہیں مگرآج بھی زمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہرزمانے میں اکثریت اِن عورتوں کی ہی زیادہ رہی ہے جن میں بحیثیت عورت نرم مزاجی اور شگفتگی کا ایک ایسا عنصر موجودہ رہا جن کی مثال رہتی دنیاتک دی جاتی رہے گیاب اِسے کوئی کچھ بھی کہئے مگر ہم اتناضرور کہیں گے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ، عورت ہی ہوتی ہے یہ چاہے دنیاکے کسی بھی اعلی عہدے پر ہی کیوں نہ فائز ہو جب تک اِس میں شک والی خصلت غالب رہے گی یہ عورت ہی رہے گی کیوں کہ وہ عورت ہی کیا جو شک نہ کرے اگر عورت سے شک کا عنصر نکال دیاجائے تو پھر وہ عورت نہیں کسی اور مخلوق کی کوئی شے ہوگی یعنی یہ کہ شک اور عورت لازم و ملزم ہیں شک کے بغیر عورت ،عورت نہیں رہتی ہے اب اِسے ہی دیکھ لیجئے کہ گزشتہ دنوں ہمارے قومی اخبارات اور ٹی وی چینلزپر یہ خبر کچھ اِس انداز سے نظر آئی کہ ہم ایک لمحے کو ششدر رہ گئے۔
قارئین اکرام تو ذرا توجہ دیجئے کہ وہ خبر جس نے ہمیں ہکابکا کر دیا تھا کچھ اِس طرح سے تھی کہ بنگلہ دیش کے ایک اہم اخبار آماردیش نے بنگلہ دیش کی اپنے زمانے کی ترش مزاج اور شکی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حوالے سے ایک بیان شائع کیا ہے جس میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ایشیاکرکٹ کپ کے سلسلے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین کھیلے جانے والے فائنل میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کی جیت کو دیدہ و دانستہ طور پر سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہاہے کہ خالدہ ضیاکس کے کہنے پر پاک بنگلہ میچ دیکھنے اسٹیڈیم گئی تھیں اِن کے اسٹیڈیم جانے کی وجہ سے بنگلہ دیش اپنا جیت ہوامیچ ہار گیا ہے جبکہ جیت ہمارے قدموں تلے تھی اوراِسی کے ساتھ ہی اخبار نے اِس حوالے سے یہ سرخی بھی لگائی کہا ایشیاکپ، خالدہ ضیاکی وجہ سے بنگلہ دیش پاکستان سے ہارا بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہے۔
قارئین اکرام اِسی بنگلہ دیشی اخبار آماردیش اپنی اِس خبر کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے لکھتاہے کہ ایک مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یہ سوال کیا کہ خالدہ ضیاجنہوں نے ماضی میں کبھی میدان میں قدم نہیں رکھا آخر کیا وجہ ہے کہ اِسی دن خالدہ ضیاصاحبہ کیوں میچ دیکھنے اور کس کی ہمت افزائی کے لئے کون سا منترپڑھنے یا جادوکرنے کے لئے گئیںتھیں پوری بنگلہ قوم اِن سے اِس بات کا جواب چاہتی ہے اِس موقع پر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے یہ تک کہہ دیاکہ ہم ایشیا کپ میں صرف دورن سے ہارے جو پاکستان کا پریمی ہو، پاکستان کے آئی ایس آئی سے روپیہ لیتا ہواگر وہ میدان نہ جاتیں تو ہوسکتاتھا کہ ہم جیت جاتے۔شیخ حسینہ واجد نے اِسی مباحثہ میں اپنے ملک کی ہار سے متعلق اپنی ایک ملازمہ کے جذبات کا اظہار بھی اپنی زبانی کچھ اِس طرح سے کردیاکہ جس سے اِن کی پاکستان سے نفرت کا کھل کر اظہار ہوگیاہے وہ کہتی ہیں کہ میری ایک ملازمہ چھٹی گزارنے کے بعد جب اپنے گاوں سے واپس آئی تو اِس نے انتہائی افسردہ لہجے میں مجھ سے کچھ اِس طرح سے سوال کیا کہ میرا شک یقین میں بدل گیا اس نے کہاکہ میڈم کیا ہماراملک ہارگیاہے.؟پورے ملک میں ایک یہی بات کی جارہی ہے کہ وطن فروشی کرنے والوں کو اپنے دیس کے لئے کبھی دردنہیں ہو گا۔
اِس سے قبل بنگلہ دیش کی ٹیم نے بھی ایشیاکرکٹ کپ کونسل سے میں اپنا ایک ایسا انوکھا اور ناقابل یقین ا عتراض بھی داخل کرایا تھا جس پر شائقین کرکٹ کو بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کے دماغ اور سوچ پر شک ہونے لگاتھا کہ یہ اپنی ہار سے اتنے مایوس ہوگئے ہیں کہ یہ پاگل ہونے کے قریب ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہار جیت کھیل کا ازل سے ہی حصہ ہے گھیل کوئی سا بھی ہواِس میں فتح اور جیت سے وہی ٹیم ہمکنار ہوتی ہے جو زیادہ محنت کرتی ہے یہ ٹھیک ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اِس سال کچھ زیادہ ہی محنت کررکھی تھی مگریہ بھی کوئی خاص ضروری نہیں تھاکہ بنگلہ دیش کی ٹیم ایشیاکرکٹ کپ کا فائنل بھی جیت جاتی اِس میں یقینااِس کی کچھ زیادہ ہی کوتاہیاں ہوں گی جنہیں دورکرنے اور آئندہ جیت کے لئے اِسے زیادہ محنت کرنی ہوگی شیخ حسینہ واجد کا یہ کہنا ہم خالدہ ضیاکی وجہ سے ہارے ہیں تو یہ غلط ہے۔