زمانہ جاہلیت میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ جوان ہوئے تو تجارت شروع کر دی، اپنی صداقت ، دیانت اور راست بازی کے باعث بہت بڑا نفع کمایا۔ ابتدا میں ہی حضرت ابوبکرصدیق کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔
خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہجرت سے 47 برس قبل پیدا ہوئے۔ زمانہ جاہلیت میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ جوان ہوئے تو تجارت شروع کر دی، اپنی صداقت ، دیانت اور راست بازی کے باعث بہت بڑا نفع کمایا۔ ابتدا میں ہی حضرت ابوبکرصدیق کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔ قبول اسلام کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی فرزندی میں قبول فرما کر ایک عظیم شرف سے نوازا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا۔
جب مکہ مکرمہ میں مشرکین کے ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورے سے عثمان نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ کو ساتھ لیکر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکا حال معلوم ہوا تو فرمایا:”میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی” حبشہ سے واپسی کے تھوڑے عرصے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کوہجرت مدینہ کا حکم دیا تو حضرت عثمان بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔
ہجرت مدینہ کے بعد جب کفار اسلام کی روزافزوں ترقی سے خوفزدہ ہو کر اسکی بیخ کنی کا خواب دیکھنے لگے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا حضرت عثمان اگرچہ طبعا سپاہیانہ ذوق نہیں رکھتے تھے مگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے بعد جان و مال کی قربانی پیش کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔تمام غزوات میں شرکت کی۔غزوئہ بدر کے موقع پر جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت رقیہ بیمار تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان کو ان کی تیمارداری کیلئے مدینہ میں چھوڑ دیا۔
جب غزوہ بدر کی فتح پر صحابہ کرام نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت عثمان اور اسامہ بن زید اس ملکہ جنت کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔ محبوب بیوی اور وہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورنظر کی وفات کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا حضرت عثمان پر بیک وقت دو بھاری مصیبتوں کا غم ِ گراں آپڑا،ایک حضرت رقیہ کی جدائی کا غم اور دوسرا اسلام کی پہلی اور عظیم الشان جنگ غزوہ بدر سے محرومی کا غم۔اس کے بعد ہمیشہ افسردہ خاطر رہتے ۔
حضرت عمر نے ہمدردی کے طور پر کہا کہ جو ہونا تھا ہو گیا اب اس قدر رنج و غم سے کیا فائدہ؟ حضرت عثمان نے کہا افسوس ! میں جس قدر اپنی محرومی قسمت پر ماتم کروں کم ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ”قیامت کے دن میری قرابت کے سوا تمام قرابت داریاں ختم ہو جائیں گی۔ افسوس ! کہ میرا رشتہ خاندانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹ گیا”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی دونوں مصیبتوں کا ازالہ فرمایا کہ بدر کے مال غنیمت میں سے انہیں ایک مجاہد کے برابر حصہ عنایت فرمایا اور بشارت سنائی کہ وہ اجر وثواب میں بھی کسی سے کم نہیں رہیں گے۔ پھر اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے ان کا نکاح کروا کر دوبارہ خاندانِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کارشتہ قائم کر دیا۔ ”ہر پیغمبر کا ایک دوست ہوتا ہے اور میرے جنت کے رفیق عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں۔ (ابن ماجہ)’
آپ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ منبع خلائق ومرجع عبادات و سخا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جمیع اوصاف کے مالک ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی تمام زندگی اطاعت خدا و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزری۔ محبوب خدا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی قریبی رفقا میں آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ہوتا ہے۔ فاروق اعظم کی شہادت کے بعد چھ کبار صحابہ کرام پر مشتمل مجلس شوری نے حضرت عثمان کو خلافت کیلئے منتخب کیا ۔ محرم 42 ھ کو اتفاق عام کے ساتھ آپ نے مسند خلافت سنبھالی ۔
بیعت لینے کے بعد یہ خطبہ دیا۔ فرمایا: ”میرے نازک کندھوں پر یہ بارگراںڈال دیا گیا ہے جسے میں نے قبول کر لیا ہے ۔ سن لیجئے میں کتاب و سنت کی اتباع کرنے والا ہوں میں اپنی فطرت سے بدعت ایجاد کرنے والا نہیں”۔اس کے بعد ارشاد فرمایا”پھر سن لیجئے ! کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمہارے مجھ پر تین حق ہیں۔ حضرت شیخین کی اتباع یعنی جن امور پر امت کا اجماع ہو جائے اور اہل خیر کی سنت پر عمل پیرا ہونا اور اپنے آپ کو تم سے روکے رکھنا سوائے ان امور کے جن کو تم خود واجب کر لو ۔سن لو! بلا شبہ دنیا ایک سبز باغ ہے جو لوگوں کے دلوں کو لبھاتی ہے اور اس کی طرف بہت سے لوگ جھک جاتے ہیں ۔ پس تم دنیا سے دل نہ لگائو اور نہ ہی اسے مضبوط پکڑو۔ یہ مضبوط و محکم چیز نہیں اور جان لو کہ دنیا کسی کو نہیں چھوڑتی۔ سوائے اس کے جو اسے چھوڑ دے۔”
آپ کے زمانہ خلافت میں جو علاقے فتح ہوئے ان میں طرابلس ، الجزائر ، مراکش ، اسپین ، طبرستانی ، آرمینیہ ، طالقان اور تنگنائے قسطنطنیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت عثمان غنی نے بے شمار کارنامے سرانجام دیئے ، وسیع تر فتوحات ، صوبوں کی تقسیم، حکام کی نگرانی ، جدید تعمیرات ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر و توسیع ، بحری جنگوں کا آغاز اور بے انتہا مذہبی خدمات آپ کا طرہ امتیاز ہے۔اکثر اوقات خوفِ خدا سے آبدیدہ رہتے ، سامنے سے جنازہ گزرتا تو کھڑے ہو جاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے ۔ قبرستان سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی۔
آپ زہد ، تواضع و انکساری ، ایثار و سخاوت کے پیکر تھے ، سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں بیسیوں لونڈی اور غلام موجود تھے لیکن اپنا کام خود کر لیتے تھے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے ، اگر کوئی سخت کلامی کرتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے ۔ ایک دفعہ جمعہ کے روز منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک طرف سے کسی نے آواز دی کہ عثمان توبہ کر اور اپنی بے اعتدالیوں سے باز آ! حضرت عثمان نے اسی وقت قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھایا اور کہا : اللھم انی اول تائب تاب الیک۔ترجمہ:”اے اللہ میں پہلا توبہ کرنا والا ہوں جس نے تیری درگاہ میں رجوع کیا” آپ نے اپنے پورے زمانہ خلافت میں بیت المال سے اپنے ذاتی خرچ کیلئے کچھ نہیں لیا۔ اپنی تنخواہ تک عام مسلمانوں کیلئے چھوڑ دی تھی۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے ، بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کرتے۔
غزوہ خیبر کے موقع پر مسلمان عسرت اور تنگی کی وجہ سے سخت پریشان تھے دوسری طرف قیصرِ روم کی جنگی تیاریوں سے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش تھی۔ اس وقت حضرت عثمان نے لشکر کے ایک تہائی حصے کے جملہ سازوسامان کی تیاری اپنے سر لی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا : ”آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا ”
اس کے علاوہ متعدد مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان کو صاف لفظوں میں جنت کی بشارت سنائی ۔ اور آپ کی شہادت کی پیشن گوئی بھی خود زبان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو ئی تھی۔
بارہ سالہ خلافت کے ابتدائی چھ سال تو بڑے اطمینان اور امن و امان کے ساتھ گزرے مگر آخری چھ سال فتنہ اور شورش کی زد میں آگئے ، تاریخ وسیر کی کتب میں اس کے متعدد اسباب لکھے ہیںان میں سب سے اہم اور بنیادی سبب عبداللہ بن سبا یہودی کی حیرت انگیز سازشیں تھیں جس نے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک ہی مقصد یعنی حضرت عثمان کی مخالفت پر متحد کر دیا۔حضرت عثمان نے ان فتنوں کو دبانا چاہا لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی جس کابجھانا آسان نہ تھا ۔ یہاں تک کہ تمام اطراف میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہو گئی ۔ عبداللہ بن سبا نے مذہب میں مشرکانہ عقائد اختراع کر کے خفیہ طور پر تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی ۔ حضرت عثمان اور ان کے گورنروں پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگا کر یہ ظالم ان کی جان کے دشمن ہو گئے۔
چالیس دن تک آپ کے گھر کو محاصرے میں رکھا حضرت علی اور بعض دیگر کبار صحابہ کرام نے اپنے صاحبزادوں کو حضرت عثمان کی حفاظت کیلئے پہرے پر مامور کر رکھا تھا محاصرے کے دوران اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا، ایک دفعہ ام المو منین حضرت ام حبیبہ نے پانی پہنچانے کی کوشش کی مگر مفسدین کے دل نور ایمان سے خالی ہو چکے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرم محترم کا بھی خیال نہ رکھا اور بے ادبی کے ساتھ مزاحمت کر کے واپس کر دیا۔
سبائی اور باغی اس قدر شوخ چشم ہو چکے تھے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ، حضرت ابوہریرہ وغیرہ بڑے بڑے صحابہ کرام کی کسی نے نہ سنی بلکہ ان حضرات کی توہین کی ۔ بالآخر چالیس دن کے محاصرے کے بعد باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا ۔ حضرت حسن اور دیگر محافظین نے مزاحمت کی کوشش کی تو بلوائیوں نے انہیں زخمی کر دیا اوردیوار پھاند کر اندر گھس گئے ۔ بیک وقت چار بدبختوں نے حضرت عثمان پر مختلف وار کئے جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔شہادت کے وقت حضرت عثمان تلاوت میں مصروف تھے قرآن کریم سامنے کھلا تھا اس خون ناحق نے جس آیت کو رنگین کیا وہ یہ ہے۔ فسیکفیکھم اللہ وھوالسمیع العلیم۔ ترجمہ: پس اللہ تم کو کافی ہے وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت 18 ذوالحجہ 53 ھ جمعہ کے دن ہوئی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اخلاق و کردار اور عادات کے اعتبار سے نہایت نیک اور اعلی کردار کے حامل تھے۔ عفت و حیا اور پاک دامنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی برائی آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی جانب مائل نہ کرسکی۔
ابن عساکر رحم اللہ علیہ نے حضرت ابن ثور القیمی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان فرمایا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ رضی اللہ عنہ محصور تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میرے نو خصائل اللہ رب العزت کے پاس محفوظ ہیں۔ میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا۔ میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا۔ میں کبھی لہو ولعب میں شریک نہیں ہوا۔ میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی خواہش نہیں کی۔
اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ تعالی کے لئے ایک غلام آزاد کیا اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں کیا۔ زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی زناکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔ زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی چوری نہیں کی۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے مطابق قرآن حکیم کو جمع کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شرم و حیا کا یہ عالم تھا کہ خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں اس انداز سے محو استراحت تھے کہ آپ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا اسی اثنا میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمادی لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فورا سیدھے ہوئے اور اپنا کپڑا مبارک درست فرماتے ہوئے اپنی پنڈلی کو ڈھانپ لیا۔ بعد ازاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حاضر ہونے پر یہ اہتمام نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آنے پر فرمایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ”اے عائشہ رضی اللہ عنہا میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کا سیرت و کردار ہر لحاظ سے درجہ کمال پر فائز تھا۔ تادم مرگ آپ رضی اللہ عنہ راہ حق کے مسافر رہے اور شہادت کا درجہ پایا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف مخالفین نے سازشوں کا جال ایسی کامیابی سے بنایا جو آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر منتج ہوا۔عبداللہ بن سبا نے مسلمانوں کے درمیان نفاق کا بیج بونے کے لئے سازشوں اور فتنوں کا آغاز کیا۔ جس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ فتنہ ضرور بپا ہونے والا ہے جس کا دروازہ بہت جلد کھل جائے گا لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اس فتنہ کا دروازہ کھولنے کا الزام مجھ پر عائد ہو۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے لوگوں سے سوائے نیکی اور اچھائی کے کچھ نہیں کیا۔ بہر حال فتنہ کے آغاز میں لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر بے بنیاد اعتراضات کی بوچھاڑ کردی آپ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ اعمال کو نااہل و بددیانت قرار دیا جانے لگا۔
ابن سبا کی سازش سے شوال 35 ہجری میں ہزاروں افراد پر مشتمل جماعت مصر، کوفہ، بصرہ سے مدینہ طیبہ کی طرف سے روانہ ہوئی۔ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معزول یا قتل کرنے کے خواہاں تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بطور حاکم مقرر کیا لیکن ان بزرگ ہستیوں میں سے کسی ایک نے بھی اس تجویز کو پسند نہ فرمایا۔
حالات اس قدر شدت اختیار کرگئے اور منافقانہ سازشوں نے عوام کے ذہنوں پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے عداوت کا جال اس قدر تیزی سے بنا کہ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا حتی کہ پانی بھی بند کردیا گیا اور کھانے کی کوئی چیز بھی اندر نہ جانے دی۔ جو کچھ گھر میں تھا سب کچھ ختم ہوگیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو چالیس دن شدید بھوک و پیاس کی حالت میں گزارنے پڑے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو محاصرہ میں چالیس دن ہوگئے آپ رضی اللہ عنہ اس اثنا میں مسلسل روزہ کی حالت میں رہے۔ رات کو آپ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضہ اطہر سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے عثمان رضی اللہ عنہ تمہیں بہت پیاس لگی ہے تم نے مسلسل چالیس دن تک روزہ رکھا ہے۔ کل روزہ تم ہمارے پاس آ کر کھولو گے، ہم حوضِ کوثر سے تمہارا روزہ کھلوائیں گے۔ خواب دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اب شہادت ضرور ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔
آپ رضی اللہ عنہ تلاوتِ قرآنِ حکیم میں مشغول تھے کہ بلوائیوں نے حملہ کرکے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر 82 برس تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ 18 ذی الحجہ 35ھ کو ایام تشریق میں جمعہ کے دن شہید ہوئے۔ چند بزرگ ہستیوں نے بلوائیوں سے سخت مزاحمت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو حاصل کرکے جشنِ کوکب میں دفنایا۔ اناللہ وانا علیہ راجعون۔ اللہ رب العزت ہمیں محبت صحابہ رضی اللہ عنہم و محبت اہل بیت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔