کرپشن جان لیوا مرض ہے جو کسی بھی ادارے کو لگ جائے تو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے،اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ،اور جس کسی کو بھی یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے وہ کھانا تو بھول سکتا ہے لیکن مال بنانا نہیں بھول سکتا ،کچھ ایسا ہی مرض ہمارے پیارے ملک کو لگ چکا ہے،جو دن بدن میرے پیارے وطن کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے،اور یہ مرض لگانے والے بھی گھر کے ہی بھیدی ہیں جو ملک کو دھیرے دھیرے چاٹ رہے ہیں،اور ان کا پیٹ بھرنے کا نام نہیں لیتا،یہ مرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس سے کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں رہ سکا،اس مرض کی لپیٹ میں حکومتی اداروں کیساتھ ساتھ ہمارے ملک کے پرائیویٹ ادارے بھی آچکے ہیں،اور یہ مرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتا،اب تو پاکستان کا ہر ادارہ چاہے وہ اسکول ہو،کالج ہو،ہسپتال ہو،واپڈا ہو،سوئی گیس کا محکمہ ہو ،ڈاک خانہ ہو،بینک ہو،ریلوے ہو،ائیرپورٹس ہوں،یا ایک ادنیٰ سے کلرک سے لے کر ایوان صدر ہو،اس کی لپیٹ میں سب ہی آچکے ہیں،جس ملک کے صدر پر کروڑوں ڈالر کی کرپشن ہو،جس ملک کا وزیراعظم کرپشن کے دھبے سے نہ بچ سکا ہو،جس ملک کی اپوزیشن نے بیرون ممالک میں منی لانڈرنگ کی ہو،جس ملک کے وفاقی اور صوبائی وزراء نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہوں بھلا اس ملک کی عوام کو سکھ کا سانس کیسے مل سکتا ہے،میں یہ سب سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک گھر ہے اور لوٹنے والے لاکھوں کی تعدادمیں پھر بھی ہمت ہے گھر بچا ہوا ہے،بات ہورہی ہے کرپشن کی تو گزشتہ دنوں انگلینڈمیں مقیم میری ایک دوست نے مجھے ای میل کرکے بتایا کہ چندماہ قبل اسے اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک ملازم کی ضرورت تھی جو اس کے مویشیوں کے لئے چارہ لاسکے اور ان کا دودھ بھی فروخت کرسکے ،اسی سلسلے میں اس نے اخبارمیں ایک اشتہار دیا کہ اسے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لئے ملازم کی ضرورت ہے خواہش مند رجوع کریں،اشتہار چھپنے کے اگلے روز بہت سے لوگ اس کے پاس ملازمت کے سلسلے میں حاضر ہوئے اور ہر ایک نے ملازمت حاصل کرنے کے لئے اپنی اپنی روداد سنائی،ان میں سے ایک پاکستانی بھی تھا،جس نے بتایا کہ اس کے پاکستان میں غریب ماں باپ ہیں،اور دو بہنیں اور چھوٹے بھائی ہیں اسے کام کی اشد ضرورت ہے ،چنانچہ میں نے پاکستانی کی روداد سننے کے بعد اسے ملازمت پر رکھ لیا کہ غریب آدمی ہے اور بے روزگار بھی ،میری ماہانہ آمدن دودھ کی ایک لاکھ روپے تک تھی،جب میں نے پاکستانی ملازم کو رکھا تو اس نے مویشیوں کو خوب محنت سے چارہ دینا شروع کیا اور پہلے ہی ماہ مجھے ایک لاکھ روپے کے ساتھ پندرہ ہزار روپے اضافی مل گئے میں بہت خوش ہوئی کہ یہ بہت محنتی ہے میں نے اس کی تنخواہ میں خاظر خواہ اضافہ کردیا،اور وہ محنت سے اپنا کام کرتا رہا پہلے ماہ پندرہ ہزار کا منافع اگلے ماہ مزید رقم بڑھ گئی ،اور اگلے چند مہینوں میں ہی یہ رقم ایک لاکھ سے بڑھ کر تقریبا 2لاکھ کے لگ بھگ ہوگئی میں حیران ہوگئی کہ اتنے کم عرصے میں اس نے ایسا کیا کردیا ہے جو ایک لاکھ کے ساتھ ایک لاکھ روپے اضافہ ہوگیا،میں نے اسے بلایا اور اس سے رقم کے بڑھنے کے متعلق دریافت کیا کہ کیا مارکیٹ میں دودھ کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے،یا مویشی چارہ ذیادہ کھارہے ہیں جو اتنے کم عرصے میں دوگنا پیسے بڑھ گئے ہیں،اس نے بڑے ہی جوشیلے انداز میں جواب دیا ،بیگم صاحبہ ابھی تو لاکھ بڑھا ہے آپ دیکھتی جائو میں اسے تین لاکھ تک لے کر جائوں گا،میںنے حیرانگی سے پوچھا کہ وہ کیسے تو اس نے بتایا کہ وہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتا ہے تو میں سکتے میں آگئی ،مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے بہت بڑا ظلم کردیا ہے اسے اپنے ہاں ملازم رکھ کر کیوں کہ یہ تو میرے ملک کی آنے والی نسل کو اپاہج بنا رہا ہے،میری افواج کے جوانوں کو پانی ملا دودھ پلا کر ان کو کمزور کررہا ہے،میں نے اسے تھپڑمارا اور کہا کہ جی تو چاہتا ہے کہ میں تم کو سیدھا جیل بھیج دوں مگر تمہارے بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر ترس آتا ہے دفعہ ہوجائواور آئندہ کبھی اپنی شکل نہ دکھانا ،تو قارئین یہ سوچ ہے بیرون ممالک میں رہنے والوں کی جو ملاوٹ سے بنائے گئے پیسے کو برا سمجھتے ہیں،اور ایک ہم ہیں کہ ہم ہر چیزمیں ملاوٹ کرتے ہیں،دودھ میں پانی کی ملاوٹ،مرچ میں ہلدی کی ملاوٹ،وغیرہ وغیرہ، ہمارے ملک کا چھوٹے سے چھوٹا آفیسر ہو یا بڑے سے بڑا آفیسر سب کرپشن کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں،آج تک کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں آسکا جو خود بھی کرپشن نہ کرے اور اپنے نیچے کام کرنے والوں کو بھی روکے،ہمارے حکمران صرف اپنی سیٹیں مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں،اور ان کی خواہش ہوتی کہ اب باری آئی ہے جی بھر کر لوٹوخدا جانے پھر کبھی موقع ملے نہ ملے،اور ہمارے ملک کی عوام اس قدر بے حس اور اپاہج ہوچکی ہے کہ بس دیوانہ وار انہی کی مالا جپتے ہیں جو ان کوبجلی ،گیس کی لوڈشیڈنگ،مہنگائی کے تحفے دیتے ہیں،اور عوام خوش دلی سے انہیں اپنے سینوں سے لگا کر پھر سے انہی کے گیت گاتی ہے،اور وہی لیڈر پھر عوام کو ڈسنے کے لئے تیار ہوتے ہیں،اور اپنے بینک اکائونٹس بھرنے میں لگ جاتے ہیں کہ کہیں خالی نہ رہ جائیں،آخر عوام کے ٹیکسوں سے آیا پیسہ کیوں ان کی تجوریوں میں پڑا رہتا ہے اس پیسے کو نکلوانے والا کیوں نہیں آتا،یہ سارا مال وزر غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ان حکمرانوں کے اکائونٹس میں کب تک جمع رہے گا،یہ حکمران طبقہ مختلف طریقوں سے مال بنانے میں لگا ہوا ہے ،آخر اس مہلک مرض کا سدباب کس دن ہوگا،پاکستان میں لوٹ مار اور بے ایمانی کا سلسلہ کب ختم ہوگا،ہم کیوں باہر کی ڈکٹیشن پر چلتے ہیں۔ہم کیوں اغیار کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں،ہم اپنے ہمسایہ ملک دوست چائنہ کی سستی پالیسیوں کو کیوں نہیں اپناتے ،ہمارے ملک کے کرپٹ حکمران بیرون ممالک سیروتفریح میں عوام کا پیسہ کیوں برباد کررہے ہیں،جو پیسہ یہ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں برباد کرتا ہے اگر یہی پیسہ عوام پر لگایا جائے تو عوام بھوک کی واجہ سے خودکشیاں نہ کرے،بیروزگاری نہ ہو،اگر صرف صدر پاکستان سوئس بینکوں میں جمع کروایا ہوا عوام کا پیسہ واپس لے آئیں تو ہمیں کسی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ رہے لیکن ایسا ہرگز نہ ہوگا ،پاکستان کا عام آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا بابائے قوم نے یہ ملک صرف حکمرانوں کی لوٹ مار کے لئے ہی بنایا تھا،قائداعظم نے تو پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی ،جہاں پر سب کو مساوی حقوق دئیے جائینگے،مگر یہاں تو صرف دوفیصد لوگ 98فیصد لوگوں پر مسلط کردئیے گئے جو باری باری عوام کو نوچتے ہیں،اور اپنی مرضی کے نرخ نافذکرواتے ہیں تاکہ ان کی اپنی صنعتوں کو فائدہ ہو،یہاں تو ضرورت مندکواس کی ضرورت کی چیزیں نہیں مل رہیں،حق دار کو اس کا حق نہیں مل رہا،یہاں بچوں کو مساوی تعلیم کے مواقع میسر نہیں ،یہاں پر امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہورہا ہے،اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا ہر وہ بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے وہ بھی تقریبا ساٹھ ہزار روپے کا مقروض ہے ،عام آدمی سوچتا ہے کہ کیا اتنا پیسہ ہم نے کھا لیا ہے جو ہمارے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی مقروض ہیں،لیکن آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گا اگر عوام کو اب بھی شعور نہ آیا تو پھر کبھی ایسا موقع میسر نہ ہوگا،اگر عوام نے خود کو تبدیلی کی طرف لانا ہے ،اگر بیروزگاری کا خاتمہ کرنا ہے،اگرملک میں خوشحالی لانی ہے تو ایک بار نئی قیادت کو ضرور آزمائیں ،کیونکہ 50سال سے زائد پیپلزپارٹی عوام مسلط رہی ہے کیا ملا،لوڈشیڈنگ ،مہنگائی،کرپشن،30سال سے زائد ن لیگ نے عوام کے احساسات سے کھلواڑکیا کیا دیا،فاقہ کشی،خودکشیاں،بیروزگاری،مہنگائی،اور اگر عوام پانچ سال نئی قیادت کو دے دیں تو کون سی قیامت آجائیگی،ایک بار عمران خان کوبھی آزمانا چاہئے۔تحریر:ایم اے تبسم