قارئین آپ مضمون کا عنوان حیران دیکھ کر حیران نہ ہوں اگرآپ نے ابھی سے حیران ہونا شروع کر دیا تو پھر حیرت و حیرانگی کے چکر میں اس تحریر کو بھول کر ان حالات و واقعات کو یاد کرنا شروع ہو جائیں گے جن پر آپ حیران ہوئے تھے، آپ کو کچھ حیران کن باتیں اور واقعات بتاتا ہوں۔ چھے ماہ کے لمبے انتظار کے بعد آخر کار میرا ایم ا ے پارٹ ٹو کا رزلٹ آیا تو میں بہت حیران ہوا جب میرا دوست ارسلان بٹ کی طرف سے ایس ایم ایس آیا کہ میرے نمبر پارٹ ون سے کم ہیں اور نہ ہی زیادہ بلکہ اس دفعہ بھی 268نمبر حاصل کیئے ہیں ۔ پہلے تولگا جیسے وہ مذاق کر رہا ہے اور ساتھ پریشانی یہ تھی کہ اس وقت میں سیالکوٹ میں چمبر آفکامرس و انڈسٹری کی ایوارڈ کی تقریب میں جارہا تھا جہاں سیالکوٹ کی ان چھے کمپنیوں کو ایوارڈ دیئے جانے تھے جنہوں نے ایف پی سی سی آئی سے سالانہ اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ حاصل کیئے تھے تقریب کے مہمانی خصوصی کے ایک سوال نے حاضرین کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مزید حیران کر دیا اور ایک وقت کیلئے میں اپنے رزلٹ کو بھی بھول گیا اور ان کے سوال کے جواب کے بارے میں سوچنے لگا آخر وہ سوال کیا تھا جس نے سیالکوٹ کے امیر ترین طبقہ کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا سیالکوٹ کی پہچان سرجیکل انڈسٹری کیوں ایف پی سی سی آئی کا سالانہ ایوارڈ لینے میں کامیاب نہ ہوئی بیشک دنیا کہ ہرکونے میں سیالکوٹ کو سرجیکل آلات کی بدولت شہریت حاصل ہے۔
اس سوال کے جواب میں جو رائے تاجروں نے بیان کی اس کا ذکر قارئین کے سامنے پھر کبھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگلے دن والدین کو میرے پاس ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے خوشی میں متحدہ عرب امارات کے وزٹ کرنے کا تحفہ دیا۔ جس نے مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیران کر دیا اور خیالو ں ہی خیالوں میں متحدہ عرب امارات کی سیر شروع کر دی اور سوچنے لگا کہ اپنے وزٹ کے دوران دوبئی، عجمان، شارجہ اور ابو ظبہی کا سفر کروں گا اور فلاں فلاں جگہ کا وزٹ کروں گا خیالوں کے سفر کے دورے کے بعد جلدازجلد ویزے کیلئے درخواست دی جو جلدی قبول ہو گئی اور چوبیس جنوری کو جانے کی ٹکٹ بھی ہو گئی۔ چوبیس جنوری کو مقرر وقت صبح گیارہ پرجب میںجہاز میں سوار ہونے لگا تو مجھے پتہ چلاکہ شاہین ائیرلائن نے وہ جہازجس میں سفر کرنے والا تھاکرائے پر لیا ہوا ہے کیونکہ اس دن بہت سارے خوش نصیب پاکستانی متحدہ عرب امارات میں ملازمت کیلیے جارہے تھے، جس کی وجہ سے مسافروں کی تعداد ایک سو نوے سے زائد ہو گئی جب مقرر وقت پر پائلٹ نے جہاز رن وے پر چلانا شروع کیا تو میراذہن نے عرب امارات کی تاریخ کے رن وے پردوڑنا شروع کردیا اور میں عرب امارات اورکبھی وطن عزیز کے بارے سوچنے لگا۔
آیئے قارئین ایک نظرعرب امارات کی تاریخ پر ڈالتے چلیں، سات امارات پر مشتمل جزیرہ نماء عرب کے جنوب مشرقی ساحلوں پر واقع ملک نے 2دسمبر1971ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔ جس کی سرحدیں عمان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں ۔متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں قدم رکھنے سے پہلے جو خیالات اس کے بارے میں میرے دماغ میں تھے وہ اصل دبئی سے تقریباً ایک ہزار گناہ کم تھے ۔جب میں نے دبئی ائیر پورٹ سے شارجہ کیلئے سفر شروع کیا تو دبئی کی بلند بالا عمارات کو دیکھ کر ایک وقت کیلئے دل میںخیال آیا ٹیکسی ڈرائیور کوبولو ںکہ ایک منٹ کیلئے رکو اور مجھے اس 30منزلہ عمارت کا تجربہ کرلینے دو ۔لیکن دوسرے ہی لمحے مزید اعلی خو بصورت و بلند بالابلڈنگ سامنے آگئی۔ حیرانگیوں کا سفر شارجہ کی طرف گامزن تھا کہ یکدم ٹیکسی خوبصورت ٹائل و چمکدار لائٹس سے آرائستہ انڈر پاس سے گزرنے لگی ،ڈرائیور ایک منٹ کیلئے مجھ سے مخاطب ہوا اور بولا جناب ہم سمندر کے نیچے سے گزر رہے ہیں اور ہمارے اوپر سمندر اپنے سفر کی طرف رواں دواں ہے ۔اس وقت تو حیرانیگی سے آگے کی دنیا میں چلا گیا کیونکہ زندگی میں پہلی دفعہ سمندر کا دورہ کیا اور وہ بھی سمندر کی گہرائی میں جس کا اندازہ پاکستان میں بیٹھ کر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
دس گھنٹے کی جستجو کے بعد شارجہ میں اپنی قیام گاہ پر پہنچنے سے پہلے مجھے بہت تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی ۔ مگر دل نے سوچا تھکاوٹ کو چھوڑو اور شارجہ کی بلند بالا روشنیوں سے بھری اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس عماراتوں کا ایک دورہ کر آئو۔شارجہ میں پہلا دورہ اور وہ بھی اکیلے ،کوئی دوست ،رشتہ دار اور ہمسفر نہیں ۔اگر یہ تینوں چیزیں پاکستان میں ساتھ نہ ہوں تو ،راستہ بھولنا تو لازمی بات ہے؟میرے ساتھ بھی ایسا ہوا رات کے کھانے کے بعد ہوٹل کا سفر شروع کیا مگراب پتہ نہیںکہا ہو گا ہوٹل ۔نہ کو ئی رابطہ نمبر ،نہ جگہ کا صحیح طرح اندازہ ، اس وقت دل سے تمام حیرانگیوں کا سفر ختم ہو گیا اورخوف پیداہونے لگا اب کیا ہو گا اگر ٹیکسی کی مدد لی تو ٹیکسی ڈرائیور اپنے میٹر کی فکر کرئے گا اور گھومتا ہی رہے گا ؟خیر اللہنے مدد کی اور ہوٹل کا ہمسایہ ملا اور واپس ہو ٹل آیا ۔رات کو تنہائی میں شارجہ کی ترقی اور پاکستان کی ناکامیوں کا مو ازنہ ہوتا رہا ۔اس وقت اندازہ ہوا قانون کی حکمرانی ترقی کیلئے لازمی ہے۔امیر ہویا غریب قانون سب کیلئے برابر ہو ۔غلط روڈ کراسنگ چاہیے ایک غیر ملکی کرے ،عربی کر ے یا حکمران جرمانہ سب کو دو سو درہم ہو گا۔ غیر میعاری اشیاء کی فروخت ہر ایک پر ممنوع ۔غیر معیاری اشیاء سے یاد آیا ریسٹورنٹ میں کھانے کے دوران پاکستانی نجی ٹی وی پر بریکنگ نیوز آئے کہ غیر معیاری ادوایات نے اب تک سو افراد کو پنجا ب میں قتل کر دیا۔ساتھ ساتھ ہی نیوز آئی کہ اس سال طالب علموں کومزید ایک ہزار لیب ٹاپ دیئے جاگئے۔
ریسٹورنٹ کا ویٹر بنگلہ دیش سے تھا اس نے معذرت کے ساتھ مجھ سے ایک سوال کیا ۔معیاری ادویات نہیں دے سکے تو آپ معیاری لیپ ٹاپ کیسے دو گے اس سوال کا جواب تادم تحریر میرے پاس نہیں لیکن اللہ کریم سے دعا ہے کہ (یااللہ میرے وطن میں بھی صاف و سچے قانون کی حکمرانی اور حق کی بالا دستی عطا فرما۔ یااللہ ہماری دنیا وآخرت پر اپنی رحمت فرما۔ یااللہ پاک میرے پیارے پاکستان کوبھی ترقی کی شاہراہ پہ گامزن فرما۔ اے اللہ یہ میری دعا بھی ہے اور تمنا بھی۔ خدا کرے مرے ارض پاک پر اترے