ٹیچر ایجوکیٹرز وہ لوگ ہے جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اور جن کے پیشہ کو پیشہ پیغمبری کہا جاتا ہے۔ٹیچرز ایجوکیٹرز تعلیم کے ضامن ہیں جو دن رات تعلیم کو پستی سے بلندی کی طرف لے جانے کے لیے تگ و دو میں رہتے ہیں۔ ٹیچر ایجوکیٹرز کی بدولت ہی تعلیمی میدان میں بہتری آئی ہے۔
پنجاب حکومت نے 2007میں اساتذہ کی مسلسل پیشہ وارانہ ترقی کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ(DSD) پنجاب کے زیر انتظام ایک نیا سسٹم اساتذہ کی مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے نام سے متعارف کرایا۔جس کے ذریعے پنجاب بھر کے اساتذہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کے لیے ہر ضلع میں 100 سے 180 تک اساتذہ کرام کا انتخاب کیا گیا۔ ہر ضلع میں اس سارے سلسلے کو چلانے کے لیے چار ٹیچر ایجو کیٹرز کا بنیادی سکیل گریڈ17میں تقرر کیا گیا۔ ان کی باقاعدہ SNEہوئی اور ان کا بجٹ منظور ہوا۔صوبائی سطح پر اس پروگرام کا حصہ بننے والے افسران کو تنخواہ کے علاوہ تقریباً 50,000روپے incentive ملتا تھا۔
موجودہ حکومت نے CM Roadmap کے تحت ایجوکیشن ریفارم متعارف کرایا جس میں کوالٹی ایجوکیشن کا رول ٹیچر ایجوکیٹرز اور ان کی ٹیم ادا کر رہی ہے۔ اور ان کی کارکردگی ضلع بھر کے محکمہ تعلیم کے وسائل کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ حکومت پنجاب نے تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا تو DSD نے اس سارے سلسلے کو پروگرام قرار دے دیا۔
یوں تمام لوگ مستقل ہوگئے لیکن ٹیچر ایجوکیٹر اور ڈسٹرکٹ ٹریننگ اینڈ سپورٹ سنٹرز پر تعینات ملازمین اس مستقلی سے محروم رہے۔ حتیٰ کہ DSDنے اپنے ملازمین کو بھی مستقل کردیا حالانکہ ٹیچر ایجوکیٹر کے لیے دیے گئے اشتہار میں اس کو کہیں بھی پروگرام نہیں لکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی مستقل ہونے والی ملازمتیں چھوڑ کر بطور ٹیچر ایجو کیٹر جوائن ہوئے۔
یہاں کنٹریکٹ دستخط کرنے کے بعد وہ اپنی کنٹریکٹ ملازمت جو جلد مستقل ہونے والی تھی اس سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ جب کہ فریش لوگ اوورایج ہوگئے۔اس نظام کے متعارف ہونے سے تعلیمی میدان میں کافی بہتری نظر آتی۔ اس نظام کے تحت نہ صرف بچوں کی ماہانہ Assessment شروع ہوئی بلکہ اساتذہ کی on spotسپورٹ بھی شروع ہوئی اوروہ تعلیمی ادارے جو ویران نظر آتے تھے اس نظام کی وجہ سے رنگین اور جاندار بنے چونکہ ٹیچر ایجوکیٹر سخت مقابلے کے بعد منتخب ہوئے اور تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس لیے ممکن ہے کہ DSDمیں کام کرنے والے افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ لوگ ان کے لیے ہی خطرہ نہ بن جائیں۔ اس لیے ان کو مستقل کرنے کا کسی نے بھی سوچا۔
Education Pakistan
2010 میں سینئر ہیڈ ماسٹر کی پوزیشن پرسلیکٹ ہونے والے گریڈ 18کے لوگوں میں اس ٹیم کے ممبران کا بہت بڑا حصہ تھا۔ستم بالائے ستم یہ کہ ٹیچر ایجوکیٹر 2007 میں فکسڈ 22000روپے ماہوار پر تعینات ہوئے اور پانچ سال بعد آج بھی اسی تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں جبکہ ان کے ماتحت کام کرنے والے کلرک اور کمپیوٹر آپریٹر کی تنخواہ بھی 18000روپے تک جا پہنچی ہے۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ٹیچر ایجوکیٹر کے کئی سال بعد DSDمیں بھرتی کیے گئے لاء آفیسر ، پلاننگ آفیسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے گریڈ کے مطابق تقریباً 40,000روپے ماہوار تنخواہ لے رہے ہیں۔ دوسری طرف اگر پٹرول ، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کو دیکھیں جو آسمان پر جاپہنچی ہیں تو ٹیچر ایجوکیٹرکی تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ بہت سے اضلاع میں دوردراز کے اضلاع کے رہائشی ٹیچر ایجوکیٹر کام کر رہے ہیں۔ ٹیچر ایجوکیٹر رات گئے تک اپنے دفاتر میں کام کرتے ہیں ، DSD سے ایک ایس ایم ایس ، فون کال یا ای میل پر تمام تر دفتری امور محکمہ تعلیم کی نسبت جلد اور احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں حالانکہ محکمہ تعلیم زیادہ با وسائل ہے۔
ان کے پاس پارٹ ٹائم کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے کہ اپنے گھر کے نظام کو بخوبی چلا سکیں۔ اتنی محنت کے باوجود یہ ٹیچرز ایجوکیٹر آج بھی صرف ایک مشنری جذبہ کے ساتھ ملازمت کر رہے ہیں۔ جبکہ ابھی چند روزپہلے وزیراعظم پاکستان نے لیڈی ہیلتھ ورکروں کو مستقل کرکے نا صرف اپنے لیے ان سے دعائیں لی ہیں بلکہ اپنی پارٹی کے ووٹوں میں بھی اضافہ کرلیا ہے۔ پنجاب کی یہ جمہوری حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جو اپنی مدت کے پورے پانچ سال گزا رکرجارہی ہے کیا وہ اس خوشی میں ان ٹیچرز ایجوکیٹرز کو کنفرم کرکے ان کو یہ چھوٹاسا تحفہ نہیں دے سکتی۔
میاں شہباز شریف کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکی پنجاب حکومت بھی اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے اور انکی حکومت نے تعلیم کے میدان میں جو جھنڈے گاڑے ہیں اور جتنے لیپ ٹاپ تقسیم کیے ہیں توکیا وہ جاتے جاتے اپنے لیے نیکی اور اپنی پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ نہیں کرا سکتے جیسا وزیراعظم نے کیا؟ ایسا ہی ایک کام وزیراعلیٰ پنجاب بھی کرکے اپنی پارٹی کے لیے آسانی پیدا کرسکتے ہیں اوروہ اسی صورت میں ہے کہ وہ ان ٹیچرز ایجوکیٹر ز کو مستقل کر دیں تا کہ تعلیم کے میدان میں یہ پودا تنا آور درخت بن سکے۔
یہ حقیقت ہے ٹیچرز ایجوکیٹرز اور ان کی ٹیم بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کررہی ہے ۔ ان کی بدولت گورنمنٹ سکولوںکے امتحانات کے رزلٹ میں بہت بہتری آئی ہے ۔ ان کے چیکنگ کی وجہ سے جو اساتذہ اپنی پیشہ وارنہ سرگرمیوں سے دور بھاگتے تھے تووہ اپنے فرائض اچھے طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ان کے امتحانی طریقہ کار سے بچے بھی تعلیم میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ان کی اچانک چھاپے کے ڈر سے جو اساتذہ اکثر سکول سے غائب رہتے تھے وہ سکول میں موجود رہتے ہیں۔
جن لوگوں کی وجہ سے میدان تعلیم سرسبز ہے ان کو پھر مستقل کرنے میں حکومت اتنی دیر کیوں لگا رہی ہے؟ ایسے نظام کو اور ایسے فرض شناس لوگوں کو تو سب سے پہلے مستقل کرنا چاہیے تاکہ وہ اساتذہ جو سکول سے غائب ہو کر مفت کی تنخواہ لے رہے تھے یا جن لوگوں کے ذہن میں یہ ہے کہ شاید یہ سسٹم ختم ہو جائے گا اور پھر ان کے عیاشی کے دن شروع ہوجائیں گے ان کو یقین ہوجائے کہ اگر انہوں نے تعلیم میدان میں رہنا ہے تو پھر اپنے فرائض منصبی ٹھیک طریقے سے نبھانہ ہونگے۔
کاش میاں صاحب میری آواز میں چھپے ٹیچر ایجوکیٹرز کے اس کرب کو محسوس کر لیں کہ یہ لوگ میاں صاحب کی تعلیم دوستی کی وجہ سے میاں صاحب کی طرح دن رات محنت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں مگر ان کے لیے کوئی نہیں سوچ رہا کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کے کلچر کے مطابق اپنے جائز حق کے لیے کوئی سیاسی دباؤ نہیں ڈال رہے۔