اس رپورٹ میں مقامی افراد کے ساتھ تفصیلی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان حملوں نے مقامی لوگوں کے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔متاثرہ علاقوں میں لوگ خوف کی وجہ سے جنازوں میں بھی شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں ۔اسی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے خوف سے بچوں کو سکولوں میں نہیں بھیجا جاتا یا پھر ہلاکتون کی وجہ سے کم ہوجانے والی آمدنی میں اضافے کے لئے بچوں کو سکولوں کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پرواز کرتے ڈرون طیاروں کی آواز مقامی آبادیوں کے لیے خوف کی علامت بن چکی ہے اور شہری شدید دباؤکاشکار ہیں ۔اس کے علاوہ ڈرون حملوں میں املاک کی تباہی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں جو عام شہریوں ہلاک ہوتے ہیں ان کی تعداد کا ندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آزاد ذرائع اور محققین کو ،پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔رپورٹ میں ایسے ہی ایک حملے کی مثال مارچ دو ہزار گیارہ میں شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ہونے والی کارروائی کی تفصیل کی شکل میں پیش کی گئی ہے ۔جس میں قبائلی رہنمائوں کے علاوہ مقامی تاجروں سمیت چالیس سے زیادہ افراد اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ایک ایسی گاڑی کا نشانہ بنایا گیا جس میں مبینہ طور پر چار شدت پسند سوار تھے ۔(یہ رپورٹ واشنگٹن سے پاکستان پوسٹ نے شائع کی ہے ) یاد رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں پر پاکستانی حکومت کئی بار امریکہ سے احتجاج کرچکی ہے ،جب کہ ملک کی مختلف سیاسی ،مذہبی اور انسانی حقوق جماعتوں نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں
پاکستان امریکہ سے یہ مطالبہ کرچکا ہے کہ ڈرون حملوں کا متقل حل تلاش کیا جانا چاہئے لیکن امریکہ کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے ایک موثر ہتھیا ر ثابت ہورہے ہیں اور ان ڈرون حملوں کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے ۔ہفت روزہ جنگ کینڈا نے بھی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ڈرون اٹیک غیر نتیجہ اور نقصان دہ ہیں ،امریکی حکام کو کون سمجھائے ؟اخبار لکھتا ہے ۔امریکی ڈرون حملوں سے معصوم افراد اور امدادی کارکن ہلاک ،قبائلی علاقوں کے لوگ ڈرون حملوں سے مستقل خوفزدہ اور بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں غیر ریاستی مسلح گرو پس کو منظم ہونے کا موقع ملا ہے ،حملے میں ہائی لیول ٹارگٹ صرف 2فیصد ہوئے ۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شمال مغربی پاکستان میں 24 گھنٹے ڈرون حملوں سے عام لوگ خوفزدہ رہتے ہیں ،یہ انتہائی نقصان دہ اور غیر نتیجہ خیز ہے۔
Drones
پاکستانی حکومت کس احتجاج اور مذمت میری تو سمجھ سے بار ہے ۔ایک طرف احتجاج اور دوسری طرف حملوں کی اجازت دے رکھی حکمرانوں نے جی ہاں قارئین امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے فیکس کے ذریعے مہینے میں ایک بار پاکستانی انٹیلی جنس حکام کو ڈرون حملوں کے لیے منتخب مقامات سے آگاہ کرتا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اطلاح کے بعد پاکستان منتخب علاقوں میں فضائی حدود کو کلیئر کرنے کاکام بھی کرتا ہے ۔امریکی حکام کے مطابق یہ طریقہ اس لئے اپنایا گیا ہے کیونکہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے ۔جریدے کے مطابق وائٹ ہائوس اور سی آئی اے نے اس رپورٹ کے حوالے سے تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معلومات خفیہ ہیں ۔جریدے کے مطابق ایک سابق پاکستانی عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یقین ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے بھیجے جانے والے فیکس کا واحد مقصد قانونی جواز حاصل کرنا ہے ”جواز کوئی بھی ہو اتنا تو ماننا پڑے گا کہ ڈرون حملوں کی پاکستان کو پیشگی اطلاح دی جاتی ہے ۔
حالات و واقعات کا با غور جائزہ لینے کے بعد میرے ذہن میںکچھ سوالات پید اہوتے ہیں کہ اگرپاکستان کے اندر ڈرون حملوں سمیت کسی بھی قسم کے اپریشن کی ضرورت ہے تو پھر حکمران عوام سے چوری کس بات کی کرتے ہیں ؟اس سارے معاملے کو عوام کے سامنے کھول کر کیوں نہیں رکھتے ؟کیا کوئی بھی جنگ اکیلے حکمران جیت سکتے ہیں ؟قائین محترم کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔جو بھی ہو میرا دل و دماغ تسلیم نہیں کرتا کہ یہ جنگ امن قائم کرنے کے لڑی جارہی ہے ۔آخر میں بات کرت ہیں اس سسٹم کی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نصب کررکھا ہے۔یہ ایسا سسٹم ہے قیامت تک فیل نہیں ہونے والا،صدیاں گزرگئیں انسان جنگلوں سے شہروں تک اور شہروں سے چاند ستاروں تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ ہر چیز وقت کے ساتھ پرانی اور ناکاراہوتی چلیں گئیں لیکن یہ سسٹم جوں کا توں کام کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔
خالق کائنات نے انسان کے اندر جوآٹومیٹیک سسٹم نصب کیا وہ کس طرح ہمیں برائی سے روکتا ہے ۔یہ بات ہم جانتے ہیں کہ انسان جس کام کو برا سمجھتا ہے اسے ہمیشہ چھپ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔میرے نزدیک یہی اس سوال کا جواب ہے کہ جب انسان اپنے چاروں طرف کسی دوسرے انسان کو نہیں پاتا تب اس میں برائی کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔مطلب کہ اگرکسی انسان کو سامنے دیکھ کر ہم برائی کرنے سے رک جاتے ہیں تو پھر ہمیں برائی کرتے وقت یہ سوچ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ہمارے اندر جب بھی برائی کی تمنا جاگے ہمیں اپنے ارد گرد دیکھ لینا چاہئے کہ خالق کائنات کی پیدا کردہ کوئی بھی چیز موجود ہے تو یقینا وہاں خالق خود موجود ہے ۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے صرف ہمارے سمجھنے کی دیر ہے۔اگر ہم برائی کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر جگہ دیکھ رہا ہے تو ہم برائی و گناہ کرنے سے بچ سکتے ہیں ۔میرے پاس اس موضوع پر تبصرہ کرنے کے لئے الفاظ بہت کم ہیں ۔فقط اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ انسان بننے کے لیے لازم ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کیا جائے اور اگر ہم انسان بن جائے تو پھر ہر طرف خیر ہی خیر ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں انسان بننے کی توفیق و طاقت عطا فرماکر دنیا و آخرت کی کامیابی عطا فرما!(آمین) تحریر : امتیاز علی شاکر