خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے تری مسرت پیہم تمام ہو جائے تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے غموں سے آئینئہ دل گداز ہو تیرا ہجوم یاس سے بیتاب ہو کہ رہ جائے وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے غرورِ حسن سراپا نیاز ہو تیرا طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پر جُھکے کہ جنسِ عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے فریب وعدئہ فردا پہ اعتماد کرے خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے ول دل کہ تیرے لیے بیقرار اب بھی ہے وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے