بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود چھ خلابازوں کو ہفتے کے روز اس وقت پناہ لینی پڑی جب خلائی ملبے کے ٹکڑے انتہائی برق رفتاری سے ان کے قریب سے گذرے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہاہے کہ خلاء میں بین الاقوامی اسٹیشن کے قیام کے لگ بھگ بارہ برسوں میں یہ تیسرا موقع ہے کہ خلابازوں کو خلائی مدار میں تیرتے ہوئے ملبے کے آوارہ ٹکڑوں سے محفوظ رہنے کے لیے چھپنا پڑا اور ممکنہ طور پر زمین واپسی کے لیے تیار ہونا پڑا۔
روس کے خلائی ادارے نے کہاہے کہ اس کے ناکارہ ہوجانے والے ایک خلائی راکٹ کاسموس 2251ء کاٹکڑا انتہائی برق رفتاری سے خلائی اسٹیشن سے 23 کلومیٹر کے فاصلے پر گذرا۔
روس نے یہ راکٹ 1993 میں خلا میں بھیجا تھا جو بعدازاں ناکارہ ہوگیاتھا۔
ناساکا کہناہے کہ اگرچہ راکٹ کے ٹکڑے سے اس دوری کی وجہ سے خلابازوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا، لیکن انہوں نے حفاظتی اقدام کے طورپر کہ کہیں ملبے کے ٹکڑے خلائی اسٹیشن سے ٹکرا نہ جائیں، اسے خالی کردیا۔
خلابازوں نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کیپسولوں میں پناہ لی جسے خلائی جہاز سوئز کے خلاباز، معمول کی پرواز یا ہنگامی حالات میں زمین پر اترنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے پاس کے خلائی ملبے کے ٹکڑے بحفاظت گذرنے کے بعد خلابازوں نے اپنے معمول کے فرائض سنبھال لیے۔ اس وقت خلائی اسٹیشن پر تین روسی، دو امریکی اور ڈنمارک سے تعلق رکھنے والا خلاباز موجود ہیں ۔
ایک اور خبر کے مطابق جمعے کو فرانسیسی گیانا سے ایک راکٹ ، جس پر کوئی خلاباز سوار نہیں ہے، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوا۔ یورپی خلائی ادارے کا یہ راکٹ خلائی اسٹیشن کے لیے سامان لے جارہاہے۔