خود کشی

شاکر نے خود کشی کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ وہ شہر سے کچھ دورلکھن سے کانپور جانے والی ریل کی پٹری پر چلا جا رہا تھا۔

Sucide

Sucide

آس پاس سے کئی ٹرینیں گزر چکی تھیں۔ کو ، چھِک چھِک کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بچپن میں یہ آوازیں اسے بہت پسند تھیں۔
وہ اپنے ساتھی لڑکوں کے ساتھ ٹولیاں بنا کر کو چھک چھک کرتا ہوا ایک لائن سے دوڑا کرتا تھا۔ کبھی دھڑم دھڑم کی آوازیں ایسے نکالتا جیسے ریل پل پر سے گزر رہی ہے، کبھی اتنی تیزی سے چھِک چھِک کرتا جیسے گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی ہے اورپھر اتنی لمبی
چھیک چھیک چھاک چھاک کرتا جیسے پلیٹ فارم قریب آ رہا ہے۔ اور پھر اپنے ساتھی لڑکوں کے ساتھ مل کر پان بیڑی سگریٹ
اور چائے گرم کی آوازیں نکالنے لگتا۔نوجوانی کی منزل میں داخل ہونے کے بعد بھی اسے ریل کے سفر میں خاص لطف آتا تھا۔ خصوصا جب وہ شتابدی سے سفر کرتا تھا، جو دلی اور لکھن کے درمیان بہت ہی تیز اور صاف ستھری ٹرین مانی جاتی ہے اور جس میں اخبار اور منرل پانی سے لیکر ناشتہ اور کھانا تک فراہم کیا جاتا ہے اور لاڈ اسپیکر پر لکھن کی تاریخ اور تہذیب کے
گن گائے جاتے ہیں۔۔۔لیکن آج وہ اسی شتابدی کے سامنے لیٹ جائے گا۔کٹ جائے گا۔
کو چھک چھک اور دھڑ دھڑ کرتی ہوئی ایک اور ٹرین دوسری پٹری پر سے گزر گئی۔ سرمئی بادلوں نے سورج کو اپنے
آنچل میں چھپا لیا۔ ہو ا کے جھونکے جسم کو سہلا رہے تھے۔ دور تک ریل کی پٹریوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ درختوں کی قطاریں
اور ان کے عقب میں کھیتوں کی جھولتی ہوئی بالیاں اور اکا دکا جانور نظر آرہے تھے۔ انسانوں کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔
وہ آج اپنی زندگی کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ شتابدی ٹرین سہہ پہر کو ٹھیک تین بجے چارباغ اسٹیشن سے
چلے گی اور پھر تھوڑی دیر میں اس پٹری پر سے گزرے گی اور وہ اس پٹری پر لیٹ جائے گا تا کہ ٹرین کے پہیے اس کے جسم کو کاٹتے ہوئے، چھکِ چھکِ کرتے گزر جائیں اور ان پٹریوں اور ان کے بیچ میں پڑے کنکڑوں کو لہو لہان کردیں اور دوسرے
دن اخبارات میں شائع ہو کہ ایک عاشق نے اپنی وفا شعاری کا ثبوت دیا ہے اور اس کی محبت کی داستان لا فانی ہو جائے۔

شاکر لکھن کے ایک نواب سیدآغا جانی کا بیٹا تھا۔ جن کے والد کے گھر کے دروازہ پر ، کہا جاتا ہے، کہ کبھی ہاتھی
بندھتا تھا۔ کے انقلاب میں وہ انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ اور ان کی ساری جائداد
انگریزوں نے ضبط کرکے کسی دوسرے کو دیدی تھی۔ بس ایک حویلی کے کھنڈھرات ان کے خاندان کے رہنے کیلئے بچے تھے، جن
میں اب نواب آغا جانی اپنی بیگم اور بیٹے کے ساتھ رہتے تھے۔ نواب صاحب پرانے رکھ رکھا کے انسان تھے۔ خاندانی
۔۔
عزت و شرافت پر فخر تھا۔ مگر کوئی قاعدہ کا کارو بار کرنے کی صلاحیت اور تجربہ نہیں تھا۔ مالی تنگیوں کا شکار رہتے تھے۔ مگر
تنگ دستی کا اظہار کسی سے نہیں کرتے تھے۔ اہلیہ پر پردہ کی سخت پابندی تھی۔ ان کی نو اولادیں ہوئیں تھیں مگر شاکر کے
علاوہ سب بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے گھر میں جنات بسے ہوئے ہیں، جو بچوں کو
اٹھا لے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے تو کئی کالی کالی بلیاں بھی آنگن میں گھومتی ہوئی دیکھی تھیں یا میاں میاں کی
آوازیں سنی تھیں اور نواب صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس حویلی کو ان کی حفاظت میں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
نواب صاحب کی اولادوں میں بس شاکر ہی صحتمند پیدا ہوا تھا اور وہ بھی منتوں و دعا تعویذوں کا کرم تھا، اس لئے
اس کے گال پر ہمیشہ ایک کالا تِل ہوتا اور گلے میں گنڈا اور بازوں پر تعویذ بندھے رہتے۔اور اس بات کا خیال رکھا جاتا
کہ وہ زیادہ محنت نہ کرنے پائے اور زیادہ پڑھائی سے بھی اس کی صحت پر برا اثر نہ پڑے۔ محلے ٹولے کے لڑکوں کے ساتھ
کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے سے بھی اسے منع کیا جاتا۔ بس لوڈو ، کیرم اور تاش وغیرہ کھیلوں کی اجازت تھی۔ حالانکہ شاکر کو
جب بھی موقع ملتا محلے کے لڑکوں کے ساتھ دھما چوکڑی کیلئے پہنچ جایا کرتا اور لٹو نچاتا ، کنچے کھیلتااور پتنگوں کی ڈوریں لوٹتا۔
شاکر کو لاڈ پیار سے نزاکت کے ساتھ پالنے کے باوجود ایک انگریزی اسکول میں داخل کیا گیا اور دو پرایٹ
ٹیچر رکھے گئے۔ ایک انگریزی پڑھانے کیلئے عیسائی ٹیچر اور ایک مولوی صاحب قران شریف پڑھانے کیلئے۔ مگر دونوں پر
پابندی تھی کہ شاکر کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ نہ کریں۔ اسکول میں بھی اگر کوئی ٹیچر پیٹ دیتا تو نواب صاحب
جا کر ہیڈ ماسٹر سے شکایت کرتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ کہ شاکر کلاس میں بار بار فیل ہوا اور انٹر میں تب پہنچا جب اس کے بعض
ہم عمر ساتھی بی اے اور ایم اے پاس کر چکے تھے۔
زیادہ تعلیم نہ حاصل کر سکنے کے باوجود محلے میں شاکر کی عزت تھی۔ وہ نواب صاحب کا بیٹا تھا ، جو ایماندار، متقی
اور پرہیزگار سمجھے جاتے تھے۔ بڑی سی حویلی میں رہتا تھا۔ دیکھنے میں خوبرو اور صحتمند تھا۔ اس لئے محلہ کی لڑکیاں اکثر
کنکھیوں سے اسے دیکھا کرتی تھیں۔ خوش مزاج اور ملنسار تھا اور دوسروں کا احترام کرتا تھا اس لئے پڑوسی بھی شفقت
اور محبت سے پیش آتے تھے۔ خصوصا لالہ بنواری لال تو اس پر بہت ہی مہربان تھے۔
لالہ بنواری لال ایک بڑے مہاجن تھے اور اس کے پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ سود پر قرضے دیا کرتے تھے۔
نواب صاحب کی بیگم کے بہت سے جوہرات گرویں رکھ کر اپنے قبضے میں کر چکے تھے اور اب حویلی کو گرویں رکھ کر
اس پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس لئے شاکر سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ کبھی کبھی اپنی بیٹھک
میں بلا کر دیر تک اس سے ہمدردی جتاتے اور خاندانی حالات پوچھا کرتے ۔ ان کی بیٹی روپا اکثر مسکراتی اور اٹھلاتی
ہوئی اس کے قریب سے گزرتی اور وہ اپنے سینے میں ایک میٹھا سا درد محسوس کیا کرتا۔
۔۔
شاکر اب نوجوانی کی منزل سے گزر رہا تھا۔ روپا بھی اب سیانی ہو گئی تھی۔ عنفوانِ شباب کی علامتیں اور خدو خال
ابھرنے لگے تھے۔ اسکرٹ کی جگہ اب وہ ساری پہننے لگی تھی ۔ اس کی شربتی آنکھوں کی کشش، گالوں کی سرخی، سینے کے
مدو جزر، سڈول مرمریں جسم کا جادو اورآواز کا ترنم شاکر کو مسحور کر رہے تھے۔
کبھی کبھی وہ اپنی کیاری میں سے کوئی پھول توڑ کر چپکے سے روپا کو پکڑا دیتا اور وہ اسے لے کر ہنستی ہوئی گھر کے اندر چلی جاتی یا ہولی اور دیوالی پر جب وہ لالہ جی کو بدھائی دینے کیلئے جاتا تو وہ آس پاس دیکھ کر برفی یا قلاقند کا کوئی ٹکڑا چپکے سے
اس کے منہہ میں ٹھونس دیتی اور ہنستی ہوئی بھاگ جاتی۔
آخر ایک دن جب وہ لالہ جی کو دیوالی کی بدھائی دینے کیلئے گیا تو وہ گھر پر نہیں تھے۔ دروازہ روپا نے ہی کھولا اور
برفی کا ایک ٹکڑا لا کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر جیسے ہی وہ دروازہ بند کرنے لگی شاکر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک گلاب
کا پھول اسے تھما دیا اور بولا :
روپا، تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
دھت! اتنا کہہ کر روپا نے دروازہ بند کر لیا اور گھر کے اندر چلی گئی۔
پھر اس نے کبھی لالہ جی کے گھر کا رخ نہ کیا۔ نا ہی روپا اس کے گھر کے قریب سے گزری۔ شاکر کے والد نے
گرویں پر حویلی کو دے کر لالہ سے جو قرضہ لیا تھا اس کا سود بھی اب بہت بڑھ گیا تھا اور حویلی میں اداسی چھائی رہتی تھی۔
پھر بھی نواب صاحب نے بیٹے کو کسی طرح سے انٹرمیڈیٹ کروا کر اسے یونی ورسٹی میں بھرتی کروا دیا۔ شاکر نے ہسٹری
کے شعبے میں داخلہ لیا کیونکہ روپا بھی اب یو نی ورسٹی میں یہی مضمون پڑھ رہی تھی۔اس کے حسن اور کشش میں اور اضافہ ہو گیا
تھا بچپن کے الھڑ پن کی جگہ جوانی کی شوخیاں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔
پرانی یادیں تازہ ہوئیں، پھر دوستی بڑھی اور پھر وہ محبت میں تبدیل ہو گئی اور پھر چھپ چھپ کر ملاقارتیں ہونے
لگیں۔
روپا میں تمھارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ شاکر نے اس سے کہا۔
میں بھی تمھیں بہت چاہتی ہوں۔ مگر شاکر میرے پتا جی ہم دونوں کا ساتھ گوارہ نہیں کریں گے۔ وہ خود کشی کر لیں گے۔ میں بھی انھیں بہت چاہتی ہوں ۔ بچپن میں جب میری ماتا جی کی مرتیو ہو گئی تو اس کے بعد سے انھوں نے مجھے ماں
کی طرح پالا ہے۔ روپا نے اداس لہجے میں کہا۔ مگر میں تمھیں بھی نہیں چھوڑ سکتی۔ میں پاگل ہو جاں گی۔ تم میرا جیون ہو۔
تم بھی میری زندگی ہو۔ شاکر نے یقین دلایا۔ میں بھی لالہ جی کی بہت عزت کرتا ہوں۔ انھیں کیسے منہ
دکھاں گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
۔۔
پھر ایک دن روپا نے بتایا : پتا جی میرے لئے لڑکا ڈھونڈھ رہے ہیں، کیا کروں شاکر؟
تو چلو ، میں چلتا ہوں ان کے پاس ۔ میں بھی تو لڑکا ہی ہوں۔
مذاق نہ کرو شاکر۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ میرا رشتہ اپنی برادری میں کریں گے۔ اور پھر تمھارا تو مذہب ہی
دوسرا ہے
پریم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا روپا۔ پریمیوں کا دھرم پریم ہوتا ہے۔
مگر دنیا اس سب کو نہیں مانتی۔ ہمارا سماج بہت کنزرویٹو ہے۔ مگر میں تمھارے بنا نہیں رہ سکتی۔
روپا کی آنکھوں سے بے تہاشہ آنسو جاری تھے۔
میری نظروں میں بس اچھا انسان ہونا ضروری ہے۔ اچھے برے تو سب دھرموں میں ہوتے ہیں۔ دھرتی
جب دھان اگاتی ہے تو یہ نہیں کہتی کہ یہ کسی ایک خاص دھرم کے لوگوں کیلئے ہے۔ بھونرا جب پھول پر نچھاور ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس پودے کو کس دھرم کے مالی نے لگایا ہے۔ بلبل کے گیت، کوئل کی کوک اور پپیہے کی پی کہاں اور بلبل کے نغمے کسی ایک دھرم کیلئے نہیں ہوتے۔ کوئی دھرم یہ نہیں کہتا کہ پیاسے کو پانی پلانے سے پہلے اس کا نام اور دھرم پوچھ لو۔ انسان کو جب تڑپتا
ہوا دل دیا گیا ہے تویہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ حسن کیلئے نہ تڑپے۔
فلاسفی نہ بگھارو ، شاکر، میں سنجیدہ ہوں۔ یہاں جان کا سوال ہے۔
تو پھر کیا کروں روپا؟
میں کچھ نہیں جانتی۔ روپا اپنے آنسو پونچھ کر چلی گئی۔
شاکر دیر تک خلا میں گھورتا رہا جیسے پوچھ رہا ہو:
کیا کسی دوسرے مذہب کی لڑکی یا لڑکے سے پریم کرنا سچ مچ جرم ہے؟ کیا ہمارے دھرم واقعی اتنے بے رحم ہیں؟
پھر اللہ تعلی نے دل کیوں دیا ہے؟ دل میں محبت کیوں پیدا کی ہے؟ کیا دو مختلف دھرموں کے ماننے والوں کے سنگم سے
انسانیت کا بھلا نہیں؟ کیا پیار رنگ و نسل، مذہب و ملت، ذات پات، برادری تک محدود ہونا چاہئے؟ اور اگر ایسا ہی ہے
تو اسکی حد کیا ہوگی؟ دوسرے مذہب میں نہ کرو۔ دوسری ذات میں نہ کرو۔دوسرے قبیلے اور دوسرے پیشے کے لوگوں میں نہ کرو۔ آخر یہ اختلافات ختم کیوں نہیں ہوتے؟

روپا کئی دن تک یونیورسٹی میں نہیں آئی۔ شاید بیمار تھی۔ شاکر کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا۔ اس نے کئی بار سوچا کہ
روپا کے گھر جا کر خیریت معلوم کرے ۔ مگر ہمت نہ پڑی۔
۔۔
پھر ایک دن جب روپا یونی ورسٹی میں آئی تو بہت پریشان تھی:
شاکر، پتا جی نے میرے لئے لڑکا دیکھ لیا ہے۔ وہ رشتہ طے کر رہے ہیں۔ دلی کا رہنے والا ہے۔ وہاں بزنس
کرتا ہے۔ میں آتم ہتیا کر لوں گی
ایسا نہیں کہتے روپا! شاکر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
تو چلو ہم یہاں سے بھاگ نکلیں۔ میں بالغ ہوں شاکر!
نہیں! شاکر کے منہ سے ایک گھٹی سی چیخ نکل گئی۔ دونوں پیپل کے پیڑ کے نیچے بیٹھے دیر تک روتے رہے۔
سورج شرم سے بادلوں کی اوٹ میں چھپنے لگا۔ زرد پتے پیڑ سے گرتے رہے۔

روپا اور شاکر کسی کو بتائے بغیر کانپور چلے گئے۔ وہاں انھوں نے عدالت میں سِوِل میرج کی درخواست دینے کی
کوشش کی۔مگر انھیں کسی وکیل کی ضرورت تھی اور وہ فورا فراہم نہ تھا۔ دوسرے دن وہ عدالت میں جانے کیلئے ہوٹل سے
نکل ہی رہے تھے کہ پولیس نے شاکر کو گرفتا کر لیا۔ اس پر روپا کے اغوا کا الزام تھا۔ اس نے قسمیں کھائیں کہ روپا اپنی
مرضی سے آئی ہے۔ وہ بالغ ہے۔ روپا نے بھی تصدیق کی۔ مگر پولیس نے کوئی اعتبار نہیں کیا۔ شاکر کی ہر دلیل کا جواب
پولیس کی لاٹھی اور گھونسے تھے اور لالہ جی کی دائر کی ہوئی رپورٹ تھی۔

آج کئی مہینوں کے بعد اسے جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ روپا نے بیان دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گئی تھی۔
مگر اب اس کے ساتھ نہیں جائے گی۔ اپنے پتا جی کی مرضی پر چلے گی۔ اور اس کے پتا نے مقدمہ واپس لے لیا تھا۔
جیل میں اسے صرف اتنا بتایا گیا کہ لالہ جی نے مقدمہ واپس لے لیا ہے اس لئے اسے رہا کیا جا رہا ہے۔
شاید اس کی محبت جیت گئی ہے۔ اس نے سوچا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ جیل کی سختیوں کو بھول
گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ فورا اپنے باپ کے سامنے سر جھکا کر ان کو جو تکلیفیں ہوئی ہیں ان کے لئے معافی مانگ لے
اور ماں کے سینے سے چمٹ جائے۔لالہ جی کی ڈیوڑھی پر جا کر انھیں نمسکا ر کرے اور کہے کہ چھما کیجئے، مجھے پہلے
آپ سے اجازت مانگنی چاہئے تھی۔ اور پھر روپا کو بازوں میں لے کر اتنا پیار کرے کہ اس کے دونوں گال سرخ ہو جائیں۔
لیکن جب شاکر اپنے باپ کی حویلی پر پہنچا تو پھاٹک پر تالا پڑا ہوا تھا۔ اس کے ماں باپ کہیں اور چلے گئے تھے۔اور
ان کی خاندانی حویلی اب لالہ بنواری لال کی ملکیت تھی۔
لالہ جی کے گھر کے سامنے شہنائی کی سریلی آواز گونج رہی تھی۔ ان کا گھر رنگ برنگی جھنڈیوں اور قمقموں سے سجا
۔۔
ہوا تھا۔ مہمانوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔گھر کے سامنے گلی میں دور تک لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
یہ کیسا جشن ہے؟ اس نے ایک لڑکے سے پوچھا۔
لالہ جی کی بیٹی کا بیاہ ہے۔ منڈپ میں پھیرے لے رہی ہے۔ برات کل تیسرے پہر کو شتابدی سے دلی
واپس جائے گی ۔ اسے بتایا گیا۔
شاکر کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گیا اور خیالات میں گم آوارہ گھومتا رہا۔ وہ رات اس نے ایک پارک کی بنچ پر گزاری
اور دوسرے دن چارباغ ریلوے اسٹیشن پر بھٹکتا رہا۔
اس کی روپا اس سے چھین لی گئی تھی۔ والدین بچھڑ گئے تھے۔ خاندانی حویلی چھین لی گئی تھی۔ کئی مہینے جیل میں
گزارنے کے بعد نام پر کالا دھبہ لگ گیا تھا۔ اب نہ کسی نوکری کی امید تھی نہ عزت و وقعت کی۔ زندگی تاریک تھی۔
اب وہ جی کر کیا کرے گا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ شتابدی کے آنے کا وقت ہو رہا تھا۔ اب اسے اسی ریل کی پٹری پر لیٹ جانا چاہئے۔
دور سے ٹرین آتی ہوئی نظر آئی۔ یہ ضرور شتابدی ہے۔ اس نے سوچا۔ سیٹی کی آواز، چھِک چھِک، پتوں کی سرسراہٹ
اور گھڑگھڑاہٹ۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔ روپا، روپا ، روپا۔ اس کی آواز جنونی ہونے لگی۔ وہ ریل کی
پٹری پر ساکت کھڑا روپا کو پکار رہا تھا۔ ٹرین قریب آتی جا رہی تھی۔

اچانک اسنے دیکھا ایک بکری کا بچہ بھاگتا ہوا ریل کی پٹریوں کے بیچ میںآ گیا ہے اور میں، میں کر رہا ہے۔
ٹرین قریب آتی جا رہی تھی۔ انجن اور بکری کے بچہ میں فاصلہ زیادہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس نے جست لگائی اور بکری
کے بچے کو گود میں لے کر دور تک لڑھکتا ہوا چلا گیا۔ شتابدی کو چھِک چھِک ، دھڑ دھڑکرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ اور پھر نظروں
سے اوجھل ہوگئی۔

بکری کا بچہ ابھی بھی اس کی گود میں دبا ہوا میں، میں کر رہا تھا۔ شاکر کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ریل کی فولادی سیاہ پٹریاں چمک رہی تھیں ۔ پیڑوں پر جیسے ہریالی چھا گئی تھی اور پتوں سے مدھر سرگم پھوٹ رہے تھے ۔ سورج ابھی بھی بادلوں سے اٹکھیلیاں کر رہا تھا اور دور کھڑے کچھ کسان اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
شاکر نے بکری کے بچے کے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر پیار کیا اور اسے گود سے اتار کر زمین پر چھوڑ دیا، بغیر یہ سوچے
کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ اس کا مالک کون ہے؟ کیا نام ہے؟
بکری کا بچہ میں، میں کرتا ایک کھیت میں غائب ہو گیا۔

عارف نقوی برلن