جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہ اچھے، بُرے، خوشحال، بدحال، بے حس، بے بس ہر قسم کے لوگوں سے آباد ہے۔ کسی کو اپنی امارت کا اندازہ نہیں اور کئی نانِ جویں تک کو ترستے ہیں۔ یہاں انسانیت کیلئے دردِ دل رکھنے والے کم جبکہ دل کیلئے درد بننے والوں کی بہتات ہے۔ معاشی ناانصافیاں، مالیاتی ناہمواریاں اور امیر و غریب کا بڑھتا ہوا فرق معاشرے میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ جوں جوں یہ فرق بڑھتا جاتا ہے طبقاتی تقسیم گہری ہوتی جاتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے اسی تضاد کی وجہ سے امیر اور غریب کیلئے انصاف کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ اپنے وقت کے حکمران حضرت عمر فاروق کا فرمان تھا کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کوئی کُتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت والے دن میں جوابدہ ہوں گا لیکن اس وقت میرے ملک میں جہاں مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے متوسط طبقہ بھوکا مر رہا ہے وہاں بالادست طبقہ عیاشیوں میں مصروف ہے۔ غریب اتنا سادہ ہو گیا ہے کہ خودکشی پر مجبور ہے اور زہر کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے جبکہ قوم کے ہمدرد حکمران بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم کر عوام پر رعب جماتے رہتے ہیں، قوم کے محافظ بننے کے بجائے انہیں غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ غارت گر، دولت مند گروہ غریب کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر انسانی محنت کے تمام فوائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہے اور غریب کا خون نچوڑ کر دولت کے انبار لگا رہا ہے۔ گویا دولت کے انبار ہی اکٹھے کرنا اس نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا ہوا ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک غریب دیہاڑی دار مزدور محمد گل کو بھی اس معاشرتی ناانصافی پر گلہ ہے۔ یہ وہی سوات ہے جسے سیاحوں کی جنت اور سوئٹزرلینڈ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہ ضلع سنٹرل ایشیاء کی تاریخ میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے لئے مشہور ہے۔ یہ سرسبز و شاداب اور وسیع میدانوں کے علاوہ تجارت کا مرکز بھی ہے۔ یہ علاقہ ایک عرصہ تک عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان میدانِ جنگ بنا رہا ، اسی ضلع کی طالبہ ملالہ یوسفزئی (گل مکئی) امن کا عالمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔ اس جنت نظیر سیاحتی مرکز میں جہاں روزانہ سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے وہیں اسی علاقہ سے تعلق رکھنے والا ایک غریب باپ اپنے ڈھائی سالہ معصوم بیٹے کے علاج کیلئے پریشان ہے۔ محمد گل شاید یہ جانتا ہو کہ اُس کے ملک سے لوٹے گئے اربوں ڈالر اگر سوئس بینکوں میں نہ جاتے تو آج وہ اپنے بچے کے علاج کیلئے در بدر نہ پھرتا۔ وہ شاید یہ بھی جانتا ہو کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر معلوم نہیں کس پر، اگر یہ پیسہ مستحق کو ملتا تو اس دیہاڑی دار مزدور کواپنی درد بھری کہانی بتانے کی نوبت نہ آتی۔ محمد گل جہاں پاکستان بیت المال، زکوٰة اور دیگر خیراتی اداروں سے نااُمید ہے وہاں یہ بھی گلے شکوے کر رہا ہے کہ کالم نگار حضرات عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ایسے مسائل زیرِ بحث لاتے ہیں جن میں عوام کو براہ راست کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس غریب باپ کی بذریعہ ای میل موصول ہونے والی یہ درد بھری کہانی ہجوں اور اِملا کی درستگی کے ساتھ اسی کی زبانی بیان کرتا ہوں۔ یہ خط موصول ہونے کے بعد جب میں نے محمد گل اور ای میل بھیجنے والے شخص سے رابطہ کیا تو دونوں طرف سے اس حقیقت کا اظہار ہوا کہ دل کے عارضہ میں مبتلا اس معصوم بچے کے علاج کیلئے کم از کم ڈھائی لاکھ روپے درکار ہیں اور دونوں خاندانوں نے انسانیت کا درد رکھنے والوں سے اپیل کی کہ وہ معصوم محمد سعید کی جان بچانے کیلئے اُن کا ساتھ دیں۔ اس دیہاڑی دار غریب باپ کی طرف سے بذریعہ ای میل بھیجا گیا خط ملاحظہ کیجئے۔ سوات سے ایک غریب والد کا کھلا خط! السلام علیکم! اُمید کرتا ہوں کہ آپ ٹھیک ہونگے۔ محترم میں ایک غریب اور دیہاڑی دار مزدور ہوں۔ میرا بیٹا دل کی بیماری میں مبتلا ہے اور میں کافی عرصہ سے اپنے بیٹے محمد سعید کے دل کی بیماری کی فائلیں بغل میں پکڑ کر سرکاری ہسپتالوں میں ذلیل و خوار ہو رہا ہوں۔ ایسا کوئی سرکاری ادارہ نہیں چھوڑا جہاں پر بیٹے کے علاج کیلئے درخواست نہ دی ہو۔ میرے بیٹے کی بیماری کا ہر روز ایک نیا امتحان ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر صاحبان صحیح طریقے سے بات تک نہیں کرتے کیونکہ میں ایک محنت کش ہوں اور میرے پاس کوئی سفارشی رقعہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے کہ اُس نے آنکھوں میں آنسو پیدا کیئے ۔ ان آنسوئوں کے بہنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اصل زندگی وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے۔ میرا بیٹا محمد سعید جس کی عمر ڈھائی سال ہے اُس کے دل کے دو وال بند ہیں۔ وہ جب روتا ہے تو رونے کے ساتھ ہی بیہوش ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے میرے بیٹے کے ہاتھ پائوں سبز ہو جاتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال مردان میں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے میرے لختِ جگر کو دیکھا اور مجھے پشاور کے ایک ڈاکٹر عدنان محمود گل ہارٹ سپیشلسٹ کو ریفر کیا۔ پشاور کے ڈاکٹر نے مجھے AFICہسپتال راولپنڈی کو ریفر کیا۔ وہاں پر کرنل انعام اللہ صاحب نے او پی ڈی میں میرے بیٹے کا چیک اپ کیا اور مجھے کہا کہ تین ماہ کے اندر اندر اپنے بیٹے کا آپریشن کرائو۔ AFICوالوں نے مجھے ڈھائی لاکھ روپے کا اسٹیمیٹ دیا۔ میں دیہاڑی کا مزدور ہوں، اتنی بڑی رقم کہاں سے لائوں گا۔ ہمارے حکمران ایک باورچی خانے کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر میرے بیٹے کے علاج کیلئے ڈھائی لاکھ روپے ان کے پاس نہیں ہیں۔ آپ کالم نگار بھی بڑے سنگدل ہیں اور آپ کے دلوں میں خوفِ خدا نہیں ہے۔ کبھی آپ میمو، کبھی منصور اعجاز، کبھی این آر او کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں اور عام عوام ان سیاسی کالموں سے تنگ آ چکی ہے کیونکہ آپ لوگ عوامی مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اکثر ایسے موضوعات کو زیرِ بحث لاتے ہیں جن میں عوام کو براہ راست کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہم غریب لوگ جب چاروں طرف سے مایوس ہو جائیں تو ایک دروازہ کھلا دکھائی دیتا ہے جو آپ کالم نگاروں کا ہوتا ہے۔ ہم جیسے غریب اور بے سہارا لوگ کالم نگاروں سے بڑی توقع رکھتے ہیں لیکن آپ لوگوں نے اپنے کالموں میںغریبوں کے مسائل کو کبھی بھی شامل نہیں کیا۔ میں بڑی اُمید کیساتھ آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں آپ مجھے مایوس نہیں کرینگے۔ میں نے پاکستان بیت المال، زکوٰة اور ایسا کوئی خیراتی ادارہ نہیں چھوڑا جہاں اپنے بیٹے کے علاج کیلئے درخواست نہ دی ہو لیکن ان اداروں کے پاس میرے بیٹے کے علاج کیلئے رقم نہیں ہے۔ ایم این اے کبھی اسلام آباد اور ایم پی اے پشاور میں ہوتے ہیں۔ اُن کے آگے پیچھے بھی کافی تگ و دو کیا مگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ سیاسی کالم تحریر کرتے ہیں مگر آپ کو ایک قربانی دینی ہوگی کہ آج ان سیاسی لیڈروں کے بجائے اپنے کالم میں میرا یہ خط شائع کرکے مجھ غریب کی دعا لیں۔ میں آپ کے کالم کے توسط سے انسانیت کا درد رکھنے والے اور والدین کے دُکھ کو سمجھنے والے نیک دل مخیر خواتین و حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کے علاج کیلئے ڈھائی لاکھ روپے جمع کرکے مجھے اس نمبر 0307-7495949 پر اطلاع کریں کہ مطلوبہ رقم جمع ہو گئی ہے اب آپ بیٹے کا علاج کروا سکتے ہیںتو یہ میری زندگی کا سب سے اچھا دن ہوگا۔ محترم میرے اس خط میں بہت سی غلطیاں ہوں گی مگر خدا کیلئے اسے ردی کی ٹوکری میں نہ ڈالنا۔ میں حکومت ِپاکستان، بیت المال اور زکوٰة سے اپیل نہیں کروں گا۔ اگر اپیل کرتا ہوں توخدا ترس اور انسانیت کا درد رکھنے والے اُن قارئین سے کرتا ہوں جو ایک باپ ہونے کے ناطے اپنی اولاد کا درد سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے کالم کے ذریعے میری مدد کرنیوالے مخیر خواتین و حضرات کو اس کارخیر کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں میں عطاء کرے۔ (آمین) محمد گل ولد برکت شاہ مستقل پتہ: گا ئوں کاربن گجر ڈاک خانہ گیدال کالام ضلع و تحصیل سوات عارضی پتہ: ڈاکخانہ جبر کاٹلنگ روڈ تحصیل اینڈ ڈسٹرکٹ مردان نزد جبر گرلز ہائی سکول کاٹلنگ نوٹ: میں سوات کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اور روزانہ آنے جانے کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا اس وجہ سے عارضی طور پر مردان میں بہنوئی کے گھر رہائش پذیر ہوں کیونکہ میرا بچہ اس وقت ڈاکٹر محمد قاسم خان کے زیر سایہ Mardan Cardiac Diagnosticمیں زیر علاج ہے جہاں کا فون نمبر0937-870126ہے۔ تحریر: نجیم شاہ